
تحریر : سینئر صحافی قمر اقبال جتوئی
آٹھویں قسط!!! صادق شاہ سیریز کی!! جبکہ خانپور کی تاریخ کے پہلے اور اصلی پلس مقابلہ کی دوسری قسط ملاحظہ فرمائیے گا
خان پور کی تاریخ کا پہلا اصلی پولیس مقابلہ
غلام یاسین جتوئی کے گرنے کا منظر ڈی ایس پی رائے مقصود کھرل اور دیگر پولیس اہلکار بھی دیکھ رہے تھے، ڈی ایس پی رائے مقصود بھاگ دوڑ کی عمر کے تو نہیں تھے پھر بھی انہوں نے اپنے ساتھ کھڑے ان پولیس اہلکاروں جو تازہ دم ہو رہے تھے کو غلام یاسین جتوئی کی طرف بھگایا، ڈی ایس پی کا ڈرائیور محمدافضل، ملک خالد ماچھی اور فدا عباسی بھاگ کر بھٹے کے اوپر چڑھے تو اتنی دیر میں چوہدری حفیظ اور میاں مشتاق احمد یاسین جتوئی کو اٹھا کر بٹھا چکے تھے یہ لوگ جب اوپر پہنچے تو یاسین جتوئی نے سرپکڑا ہوا تھا سب نے یہی محسوس کیا شاید یاسین کے سرمیں گولی لگ چکی تھی مگر جب اس نے ہاتھ ہٹایا تو ان حالات میں بھی سب کی ہنسی نکل گئی کہ گولیاں چونکہ اینٹوں کے دڑے پر لگی اور کچھ گولیاں ان کے سر کے اوپر سے گذر گئی تھیں مگر کسی گولی کا اینٹ سے ٹکرانے پر اینٹ کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا اڑ کر یاسین جتوئی کے سر میں لگا تھا جس سے سر کے اگلے حصے یعنی ماتھے پر تھوڑا سا روڑہ سابن گیا تھا اور وہ سرپکڑ کر بیٹھ گیا تھا نیچے سے ڈی ایس پی رائے مقصود نے بھی مذاق اڑایا، واہ او جتوئی آ،توں سانوں ڈرا ای دتا سی، اسی کیہا شئیت جتوئی شہادت دا منصب حاصل کرچکیا اے، بس یہ ایک لمحہ ہی تھا جو گذرگیا
دوسری جانب ارشد خاں چانڈیہ اپنی ذاتی جیپ پر دوبارہ تھانہ سٹی روانہ ہوجاتا ہے تاکہ مزید نفری اور اسلحہ لیکر آسکے، اتنے میں ایس ایچ او سٹی منیرافضل خاں اور تھانہ صدر کے ایس ایچ او سردار محمد ایوب ایک پرائیویٹ کار میں آتے ہیں ان کے آنے سے پولیس کے جوانوں میں ایک جان سی پڑ جاتی ہے،
بھٹہ کے شمال میں ایک چھپرے کے سائے میں یہ تمام لوگ اکٹھے ہوکر آپس میں صلاح مشورہ کررہے ہوتے ہیں کہ اسسٹنٹ کمشنرخان پور جمال مصطفیٰ سید بھی موقع پر آجاتے ہیں تمام افسران وہاں کھڑے کھڑے منصوبہ بندی کرتے ہیں پھر بنائی گئی منصوبہ بندی کے بعد ایکشن شروع ہوجاتا ہے سب سے پہلے فدا عباسی کے ذریعے ڈاکوؤں پر آنسو گیس پھینکوائی جاتی ہے مگر اس وقت ہوا مشرق سے مغرب کی جانب چل رہی ہوتی ہے جس کی وجہ سے جتنے اہلکار کوٹھڑیوں کے نزدیک پہنچ چکے ہوتے ہیں وہ شیلنگ کی وجہ سے متاثرہوکر واپس آجاتے ہیں ان کو ایک بار پھر پیچھے لوٹنا پڑتا ہے اس گیس کے اثر ختم ہونے تک فائرنگ کاتبادلہ جاری رہتا ہے ایک بار پھر فدا حسین عباسی شیلنگ کرتا ہے وہ شیلنگ کامیاب ہو جاتی ہے شیل عین اس کوٹھڑی میں گرے جہاں ڈکیت موجود تھے وہ باہر نکلے چھٹامارا سامنے کھڑے سارے پولیس والے ویسے ہی اینٹوں کی اوٹ میں تھے مگران کے چھٹے یعنی برسٹ کی یہ دہشت تھی کہ سارے پولیس والے نیچے بیٹھ گئے اور وہ بڑے آرام سے ایک کوٹھڑی چھوڑ کر دوسری میں چلے گئے، یہ کوٹھڑی پہلی کوٹھڑی کینسبت ان کے لئے محفوظ تھی ایک تو اس میں گدھوں کو چارہ کھلانے والی بُندر جو بنی ہوئی تھی وہ اینٹوں اور سیمنٹ کی تھی جو ان کے لئے پختہ مورچے کا کام دیتی رہی تھی دوسرا اس کوٹھڑی کا دروازہ صرف دو یا ڈھائی فٹ کا تھا یہ چیزیں ڈاکوؤں کے لئے سودمند تھیں جبکہ باہر والوں کی مشکلات میں ایک اضافہ ہوگیا اس کے بعد اے ایس آئی تھانہ صدر حاجی رمضان چانڈیہ کو کوٹھڑی کی پچھلی جانب سے اوپر چڑھایا جاتا ہے اتنے میں ملزموں کی جانب سے کی گئی مسلسل فائرنگ رک جاتی ہے باہر سے اکادکا فائر جاری رکھا جاتاہے مگر دوسری جانب سے کوئی جواب نہیں ملتا اور یہ بندش پانچ سے سات منٹ تک جاری رہتی ہے جہاں غلام یاسین جتوئی اور چوہدری حفیظ کھڑے ہوتے ہیں وہاں سے کوٹھڑی کا دروازہ صاف نظرآتا ہے مگر کون موت کے منہ میں جائے جو بھی اینٹوں کے پیچھے سے ذرا ساسر باہر نکالتا تھا دوسری جانب سے گولی نہیں آتی تھی پورا چھٹا آتا یعنی برسٹ!
اسسٹنٹ کمشنر جمال مصطفیٰ سید،ڈی ایس پی رائے مقصودکھرل، منیرافضل خاں اور سردار ایوب اکٹھے کھڑے ہیں اینٹوں کے ایک بڑے دڑے کے پیچھے، اس بات پر پریشان ہیں کہ آخر ان کے پاس کتنی گولیاں ہیں جو اتنی بے دردی سے چلا رہے ہیں؟ ارشد خاں چانڈیہ حاجی رمضان چانڈیہ ملک اسلم حوالدار (جو ڈی آئی جی بہالپور کو قتل کرنے کے الزام میں جیل میں بھی بند رہا ہے) انکو اور مزید گولیاں و اسلحہ لے کر آچکاہے،منیرافضل خاں ارشد خاں چانڈیہ سے پوچھتا ہے کہ تم لوگ تو ان کے ساتھ ساتھ چلتے آئے ہو ان کے پاس کتنی گولیاں ہوسکتی ہیں تمہارے اندازے کے مطابق، ارشد خاں کہتا ہے کہ میں نے جو دیکھا ا س کے مطابق ان دونوں نے سامنے تین تین اور سائیڈ سے دوبڑے میگزین پہنے ہوئے تھے اس کے علاوہ دونوں کے کندھے پر بیگ تھے جو گولیوں سے بھرے ہوئے تھے ایک محتاط اندازے کے مطابق ان دونوں کے پاس پانچ سو گولیاں ہوں گیں اور یہ اندازہً تین سو سے زاید گولیاں چلا چکے ہیں اب ان کے پاس ڈیڑھ سو سے دو سوگولی ہوسکتی ہے،
فائرنگ کی بندش پر سب حیران اور پریشان ہیں کہ اب کیا کیا جائے کیسے یہ رسک لیا جائے کہ کوئی سر اٹھا کر یا آگے بڑھ کر دیکھ سکے کہ دشمن کس حالت میں ہے؟ باہر چہ میگوئیاں شروع ہوگئیں کہ کچھ اہلکار سمجھتے تھے کہ ہم نے اتنی شیلنگ کی ہے کہ بے ہو ش ہوگئے ہوں گے کچھ اہلکار یہ سمجھ رہے تھے کہ ملزم فرار ہوجانے میں کامیاب ہوگئے ہیں؟
یہی کچھ دیکھنے کے لئے آخرکار حاجی رمضان چانڈیہ اور اسلم حوالدار کو کوٹھڑیوں پر چڑھایا جاتا ہے وہ دوکوٹھڑیوں کی چھت کراس کرکے جونہی تیسری کوٹھڑی پر پاؤں رکھتا ہے نیچے سے ایک برسٹ آتا ہے اور کئی گولیاں حاجی رمضان کے چہرے کے عین سامنے سے گذر جاتی ہیں حاجی رمضان چانڈیہ کوٹھڑی کی چھت پر گرپڑتا ہے اس کے گرنے کے انداز اور پندرہ سیکنڈ کی خاموشی اور اس کے ساقط ہوجانے کی وجہ سے تمام افسران و اہلکاران کے چہرے پر تشویش کے سائے منڈلانے لگ جاتے ہیں اوروہ یہ سمجھتے ہیں کہ حاجی رمضان کو ملزموں کی گولی کھا گئی، سردار ایوب اپنے ڈرائیور عبدالرشید (رشید تبسم سرائیکی شاعر) اور صبح صادق حوالدار کو بھٹے کے اوپر اس جگہ بھیجتے ہیں جو عین کوٹھڑی کے بالکل سامنے اور اور جگہ کا فاصلہ بھی بیس سے پچیس فٹ ہوگا، یہ کرالنگ کرتے کرتے اس جگہ پہنچتے ہیں (کسی گراؤنڈ میں کرالنگ کرنا اور اینٹوں کے بھٹے پر کرالنگ کرنے کے فرق کو بھی سمجھئے گا) یہ دونوں وہاں پہنچ جاتے ہیں قریب تر ہونے کے باوجود محفوظ اس لئے ہیں کہ ان کے آگے اینٹوں کی کھوڑیاں لگی ہوئی ہیں، انکے وہاں پہنچنے سے بھی پہلے حاجی رمضان چانڈیہ اٹھ پڑتا ہے سامنے سے دیکھنے والی پبلک اور پولیس والے اسے اٹھتا دیکھ کر خوشی سے شور مچانا چاہتے ہیں تو وہ منہ پر انگلی رکھ کر خاموش ہونے کا اشارہ دیتا ہے تمام لوگ اس کا اشارہ سمجھ کر مکمل خاموش ہوجاتے ہیں اور وہ بڑے آرام سے اس کوٹھڑی کی چھت سے پلٹا کھا کر پہلی کوٹھڑی کی چھت پر پہنچ جاتا ہے، بعد میں معلوم ہوا کہ فائرنگ کی جو بندش ہوئی تھی دراصل ان کے پاس میگزین میں گولیاں ختم ہوچکی تھیں اور وہ تھیلوں میں لائی گئی کھلی گولیاں میگزینوں میں بھر رہے تھے، حاجی رمضان چانڈیہ کے بعدپھر ملک اسلم مسن حوالدار، غلام حیدر شر اور فدا عباسی ساتھ والی کوٹھڑی کی چھت پر چڑھتے ہیں یہاں سے فدا عباسی آنسو گیس کے شیل ڈاکوؤں کی کوٹھڑی میں پھینکتاہے مگر وہ پھر بھی باہر نہیں نکلتے اندر والوں کو پتہ ہے کہ اب ان کے پاس پچاس ساٹھ گولیاں ہیں انہیں بلاوجہ ضائع نہیں کرنیں، اتنے میں ڈی ایس پی کی گاڑی پٹرول کا کین لے کر آجاتی ہے،ملک خالد ماچھی،ملک اسلم مسن اور فدا عباسی ایک گِندی کو پٹرول میں بھگوکر اسے آگ دکھاتے ہیں اور پھر وہ گِندی جلدی جلدی اوپر سے ملزمان کی کوٹھڑی میں پھینک دیتے ہیں آگ لگی گِندی جونہی اندر جاتی ہے تو ایک کوٹھڑی کی چھت پر کھڑے کھڑے اسلم حوالدار (جو ڈی آئی جی بہاولپور کو قتل کرنے کے الزام میں قید بھی رہا ہے) دوسری کوٹھڑی پر پٹرول کا پورا کین انڈیل دیتا ہے (یاد رہے کہ ملزمان کی گئی فائرنگ سے چھت میں سوراخ ہوئے پڑے تھے) پٹرول نیچے جاتا ہے آگ کے شعلے باہر والوں کو نظرآرہے ہیں مگر مجال ہے کہ اندر سے کوئی باہرآیا ہو اندر والوں نے مکمل چپ سادھی ہوئی ہے اوپر جب چھت پر یہ تماشا جاری تھا عام پبلک بھی یہ سارا مقابلہ دیکھ رہی تھی، منیرافضل نے عملی کمان سنبھالی ہوئی تھی اس نے کوٹھڑی کے سامنے اینٹوں کی لگی کھوڑیوں کے پیچھے سے چوہدری حفیظ اے ایس آئی، محمدافضل ڈرائیور ڈی ایس پی، عبدالرشید ڈرائیور تھانہ صدر (سرائیکی شاعر رشید تبسم) حوالدارصبح صادق،عبدالغنی کانسٹیبل تھانہ صدر، عنصر صابری کانسٹیبل،مشتاق احمد سی ون تھانہ سٹی خان پور، احمد علی ہیڈ کانسٹیبل تھانہ اسلام گڑھ، یاسین جتوئی اے ایس آئی تھانہ سٹی خان پور کے ذریعے کوٹھڑی کے اندر محبوس ہوجانے والے ڈاکوؤں پر فائرنگ کا پریشر بڑھوادیتے تھے۔
بھٹہ کی کوٹھڑی میں محبوس ہوجانے والے ڈاکوؤں کو پختہ یقین تھا کہ مرنا تو ہم نے آج ہر صورت ہے مگر ایک آدھ کو مار کرمریں تو اپنے سردار یعنی صادق شاہ کے سامنے اگلے جہان میں سرخرو تو ہوں گے
اس لئے اللہ ڈتہ اور حمیدا ماچھی وقفے وقفے سے باہر نکل کر فائرنگ کرتے تھے کوئی قاری یقین کرے یا نہ کرے جو خان پور کے دیہی علاقوں یا شہری علاقے سے لوگ وہاں یہ مناظر لائیو دیکھ رہے تھے انہیں یاد ہوگا کہ جب ڈکیت باہر نکل کر فائرنگ کرتے تھے ہزاروں اینٹوں کے لگے دڑوں کے پیچھے آڑ لئے پولیس والے ایک دوسرے کے اوپر گرپڑتے تھے یہ تھی ان کی دہشت یا کوئی اور بات؟ کچھ فیصلے آپ نے بھی کرنے ہیں۔
ایک اور صورتحال یک دم سامنے آگئی کہ بھٹہ کی ان کوٹھڑیوں جن میں گدھے باندھے جاتے تھے (یاد رہے ان دنوں اینٹوں کی نقل و حمل زیادہ تر گدھوں کے ذریعے کی جاتی تھی) ان کوٹھڑیوں کے عین سامنے اوپر والی جگہ پر ایک کوٹھڑی سی بنی ہوئی تھی اچانک اس کوٹھڑی میں سے یک دم بچوں کے رونے کی آوازیں آنا شروع ہو گئیں پولیس والے پریشان ہوگئے کہ یہ کیا ہوا؟ یعنی اتنی دیر سے گولیاں چل رہی ہیں آنسوگیس کی شیلنگ ہورہی تھی مگر یہ بھٹہ مزدور اپنی بچوں کے ہمراہ اس کوٹھڑی میں بڑے آرام سے سورہاتھا؟ خیر یہاں ایک بار پھر ارشد خاں چانڈیہ،چوہدری حفیظ اور غلام یاسین جتوئی کے ذمے لگایاگیاکہ ان کو بحفاظت باہر نکال کرمحفوظ جگہ پہنچاؤ دونوں تھانیداروں نے مزید گولیاں اپنے اپنے چیمبرز میں بھریں اور پھر اندھا دھندڈاکوؤں کی کوٹھڑی کی جانب رخ کرکے چلانا شرو ع کردیں یعنی ان کو ایک قسم کی پروٹیکشن دی باہر نکلے ڈاکو ایک بار پھر اندر چلے گئے اور یوں وہ بھٹہ مزدور جو اپنے بیوی بچوں سمیت اس کوٹھڑی میں موجود تھا بحفاظت انہیں محفوظ جگہ پہنچایا گیا، اگر ڈکیتوں کو پہلے پتہ چل جاتا کہ یہاں پر کسی کے بیوی بچے ہیں وہ انہیں یرغمال بنا کر پھر اپنے مطالبات بھی منوا سکتے تھے اس لئے اسسٹنٹ کمشنر جمال مصطفیٰ سید اور ڈی ایس پی رائے مقصود اب مطمعن تھے اس دوران ایک تبدیلی یہ ہوئی کہ اللہ ڈتہ تیسری کوٹھی سے نکل کر چوتھی کوٹھی میں منتقل ہو چکا تھا جبکہ حمیدا پہلے والی یعنی تیسری کوٹھڑی میں ہی تھا، حمیدے ماچھی کے پاس گولیوں کا ذخیرہ ختم ہونے لگ گیا جبکہ اللہ ڈتے کے پاس ابھی گولیوں کی وافر مقدار تھی اس لئے اللہ ڈتہ بوہڑ تھوڑی تھوڑی دیر بعد باہر نکلتا اور برسٹ مارتا پولیس والوں کو ڈراتا یہ سچویشن میں بھی دیکھ رہاتھامیں بھٹے کے سامنے لگے درختوں میں سے کیکر کے ایک درخت پر موھججود تھا جب اللہ ڈتہ کی فائرنگ زوروں پر تھی تو میں اسے صرف دو سو فٹ کے فاصلے پر تھا اور گن اوپر کرکے کی جانے والی فائرنگ مجھ تک پہنچ سکتی تھی میری ساری توجہ اس وقت ان سب کرداروں پر تھی میں کوئی ایک سین ایک لمحے کے لئے بھی نہیں مس کرنا چاہتا تھا، مگر درخت پر موجود مکوڑے مجھے بہت تنگ کررہے تھے میں ان سے بھی اپنے آپ کو بچارہا تھا اور سامنے سے آنے والی گولیوں کا خوف بھی مجھے تھا مگر کیا کریں یہ شوق بڑا ظالم ہے کبھی کبھی واقعی مروابھی دیتا ہے، میں دل ہی دل میں ان دونوں اور خاص طور پر اللہ ڈتہ کی بہادری پر عش عش کررہا تھا اور سوچ رہاتھا کاش آج میرے پاس کیمرہ ہوتاتو میں یہ سب سین ریکارڈ کرتا، اب حمیدے کے پاس شاید گولیاں کم پڑرہی تھیں اس لئے حمیدا کم کم باہر نکل کر حملہ آور ہوتا جبکہ اللہ ڈتہ کمال کی جرات کرتے باہر نکل نکل کر حملہ آور ہورہا تھا، اینٹوں کی آڑ میں بیٹھے بالکل عین کوٹھڑی کے سامنے والے تقریباً آٹھ جانباز سپاہی جرات ہی نہیں کررہے تھے کہ وہ سراٹھا کر اسے جواب دیتے ابھی میں اس منظر کو اپنی آنکھوں اور ذہن کے دریچے میں محفوظ ہی کررہا تھا کہ نیچے سے اچانک ایک سپاہی نے مجھے درخت پر چڑھا دیکھ لیا اور پہنچ گیا، او بھئی تلے لہہ، اس کا حکم تھا، میں نے سین سے آنکھ ہٹا ئے بغیر اسے کہا، ڈاڈا تو ونج اپنڑا کم کر تے میکوں اپنڑا کم کرنڑ ڈے، اس نے کہا نہ میں تاں اپنڑا کم کریندا وداں توں کیڑھا کم کریندا بیٹھیں؟تماشا ڈیکھنڑ دے علاوہ، چل تلے لہہ، میں نے اب اس کی جانب دیکھ کر کہا کہ میں اخباری نمائندہ آں، اچھا، تاں ول؟ تلے لہہ اے نہ ہووے تیکوں گولی لگی پئی ہووے تے توں ساڈی گچی لگیا پیا ہونویں چل چل تلے لہہ، مجھے یہ پتہ تھا کہ یہ سپاہی ادھیڑ عمر اور بھاری بھرکم ہے اوپر چڑھ نہیں سکتا رائفل ہونے کے باوجود مجھے وہ گولی مار نہیں سکتا اس لئے مجھے مکوڑوں کی تو پریشانی تھی مگر سپاہی کی نہیں تھی، اتنے میں ایک اور چھٹا مارا اللہ ڈتہ بوہڑ نے اور اس کی ایک گولی اسی کیکر کے درخت کے اوپر والے حصے میں آن لگی، اس کی آواز میں نے سنی سو سنی اس سپاہی نے بھی سن لی پھر کیا تھا وہ اب مجھے باقاعدہ بندوق کو لاٹھی بناکر درخت کو مارمار کر مجھے سخت اور کرخت لہجے میں اترنے کا حکم دیا اور ایک واہیات قسم کا جملہ کہہ کر اخباری نمائندوں کی شان میں گستاخی بھی کرڈالی کہ، لہہ لہہ ڈہدا پئیں جو کیکر وچ گولیاں لگدیاں پن، تیکوں گولی لگ گئی نا ول توں lllllllتے چڑھیا پیا ہوسیں تے اوبلے تیڈا جنازہ چاتی ودے ہوسن، نعرے ودے مریندے ہوسن شہید صحافت شہید صحافت، چل ہنڑ لہہ نتاں میں اُتے آویساں ول او حشر کریساں جو ساری اخبار نکتی پئی ہوسیا، مجھے آج تک اس کے سارے جملے یاد اس لئے ہیں کہ میں سمجھتا تھا کہ پولیس والوں کو کہو نا کہ میں اخباری نمائندہ ہوں وہ یا تو ڈر جاتے ہیں اور کوئی سینئر آفیسر ہوتو وہ ذرالحاظ کرتا ہے مگر ادھر سپاہی تو سارے لحاظ کو لپیٹ شپیٹ رہا تھا مگر میں نے بھی نہیں اترنا تھا، یہ فیصلہ تو میں کرہی چکا تھا اسی دوران ا یک اے ایس آئی جسے میں بھی جانتا تھاوہ سہجہ تھانے میں تعینات تھا اور مجھے جانتا تھا وہ نیچے سے گذررہا تھا اس کی بھی یہی ڈیوٹی تھی کہ لوگوں کو فائر رینج سے دور رکھو، مقابلے کے قریب نہ آنے دو، تو میں نے اسے اوپر بیٹھے بیٹھے کہا ادا جام صاحب اے ادے کو ں تاں سمجھا میڈے سِر تھیا کھڑے، اس نے سپاہی کو کہا یار چھوڑ تواینکوں پرے بیٹھے توں اوڈے جل پبلک اصلوں افسریں دے اُتے چڑھدی اے آپاں انہاں کوں پرے کروں، اس طرح سپاہی سے میری جان چھوٹی اور ایک مرتبہ پھر میں پورے انہماک سے مقابلے کی طرف متوجہ ہوگیا، اس دوران اگر کوئی نئی بات ہوئی بھی ہے تو مجھے کوئی علم نہ ہے، اب ہم ایک مرتبہ پھر چلتے ہیں اللہ ڈتہ کی جانب، دڑے کے پیچھے والوں کو پتہ تھا کہ اللہ ڈتہ یہ حرکت اب تلک چار پانچ مرتبہ کر چکا ہے اب سامنے والوں نے تھوڑی دیر کے لئے حمیدے ماچھی سے توجہ ہٹاکر ساری توجہ اللہ دتہ پر مرکوز کردی، اب جونہی چھٹی یا ساتویں مرتبہ اللہ ڈتہ باہر نکلا تو اینٹوں کے دڑے کی آڑ میں بیٹھے پولیس والوں نے اپنی گنوں کا رخ ہی نہیں کیا بلکہ سب نے ہی گولیاں چلادیں اور یوں اب کی بار باہر نکلنا اللہ ڈتہ بوہڑ کو مہنگا پڑ گیا اور درجنوں گولیوں میں سے دو گولیاں اس کو لگ گئیں اللہ ڈتہ اب نیچے گرچکا تھا جس کا علم ساتھ والی کوٹھڑی میں چھپے حمیدے ماچھی کو بھی ہو چکا تھا، اللہ ڈتہ ایسی جگہ گرا ہوا تھا جہاں نہ تو کسی کی نگاہ پڑسکتی تھی اور نہ ہی کسی پولیس والے کی گولی اس تک پہنچ سکتی تھی مگر اس کی کلاشن اینٹوں کے دڑے کی اوٹ میں بیٹھے پولیس والوں کو نظرآرہی تھی کہ وہ دیوار کے ساتھ لگی کھڑی تھی اللہ ڈتہ کا ایک زخمی ہاتھ سامنے والوں کو ہلتا نظرآرہا تھا اوروہ ہاتھ گن ہی کی جانب بڑھ رہا تھا سامنے والوں کو اندازہ ہوا کہ یہی وقت ہے کہ ان کی طاقت کم کی جائے محمدافضل ڈرائیور ڈی ایس پی نے اپنے تئیں یہ فیصلہ کیا کہ میں یہ گن اٹھانے جاؤں گا اس نے اپنے ساتھیوں کو کہا کہ تم لوگ اب اپنی گنوں کا رخ حمیدا ماچھی کی طرف کرو تاکہ اس کی ساری توجہ تمہاری جانب ہوجائے اور میں یہ گن اٹھانے میں کامیاب ہوجاؤں یہ بہت ہی خطرناک فیصلہ تھا جو افضل ڈرائیور نے خود ہی کیا پھر ایساہی کیا گیا،یک دم حمیدے ماچھی والی کوٹھڑی پر فائرنگ کا دباؤ بڑھایا گیا افضل ڈرائیور بھٹے کی سخت اور گرم ترین کنکروں سے بھری زمین پرکرالنگ کرتا کرتا کلاشن تک پہنچ گیا اور پھر اس نے ایک جھٹکے سے کلاشن اٹھائی اور خطرے کی رینج سے باہر نکل آیا، باہر آتے ہی اس نے اپنے افسران اور فرنٹ لائن پر مقابلہ کرتے جوانوں کو بتایا کہ اللہ ڈتہ کا دایاں ہاتھ کا پنجہ گولی سے اڑ چکا ہے اس کی آنتیں باہر نکلی پڑی ہیں مگر وہ مکمل طور پر ہشاش بشاش پڑا تھا
اللہ ڈتہ کے زخمی ہوجانے کی وجہ سے حمیدا ماچھی اعصابی طور پر کمزور اور مفلوج ہوچکا تھا، اس دوران کوٹھری کے عین سامنے لگے اینٹوں کے دڑے کے پیچھے کھڑے پولیس اہلکاران رشیداحمد(سرائیکی شاعر عبدالرشید تبسم) صبح صادق، مشتاق احمد سی ون تینوں حمیدے کو کہتے ہیں تم ہتھیار پھینک کر باہر آجاؤ تمہیں کچھ نہیں کہیں گے، حمیدے ماچھی نے جواب دیا کہ اگر منیرافضل خاں میکوں قسم ڈیوے تاں ول میں آویساں، منیرافضل خاں نے باآواز بلند اعلان کرنا شروع کردیا کہ حمیدا تم ہتھیار پھینک کر باہر نکل آؤ تو ہم تمہیں کچھ نہیں کہیں گے، شاید حمیدے کے پاس گولیاں ختم ہوچکی تھیں اور اعصاب بھی جواب دے گئے تھے، صبح دس بجے سے لیکر ان لوگوں نے 6کلومیٹر کا سفر بھاگ بھاگ کر کیا تھا، اب تین بج چکے تھے کھانے پینے کی کوئی شئے انہیں مہیا نہیں ہوئی پانی کا ایک گھڑا ہی تھا اللہ جانے اس میں سے کتنا پیا ہوگا، جب یہ اعلان چوتھی پانچویں بار کیا گیا تو حمیدے نے اندر سے کہا کہ منیرافضل خاں کلمہ پڑھ تے آکھ جو تساں میکوں مریسو کائناں تاں ول میں باہر نکلساں نتاں جے تئیں جیساں تنڑداں راہساں، یہاں پرڈی ایس پی رائے مقصود کھرل بولا کہ میں ڈی ایس پی رائے مقصود بول رہیاں، تُو ہتھیار سُٹ کے باہر آجا تینوں اسی ماراں گے نئیں بلکہ عدالت پیش کراں گے، حمیدا ماچھی نے بھی بلند آواز میں کہا جیویں صادق شاہ کوں عدالت وچ پیش کیتے وے میکوں وی اونویں پیش کریسو؟ میں تیڈے نال کئی گالھ نئیں کریندا ڈی ایس پی، میں منیرافضل خاں کنوں قسم گھنساں، او قسم ڈیندے تاں میں باہر نکل آؤساں،اب کوئی گولی نہیں چل رہی، جو عام لوگ وہاں اکٹھے ہوگئے تھے اس زبانی مذاکرات کے دوران ان کو خاموش رہنے کا حکم دیا گیا، فضا میں بارود اور زہریلی آنسو گیس کی بو پھیلی ہوئی ہے، جو تماش بین لوگ بھی آگے بڑھتے تھے وہ آنسو گیس کی بو سے پیچھے چلے جاتے، اس دوران رائے مقصود کھرل نے منیرافضل خاں کو اشارہ کیا کہ تم کلمہ پڑھو یا ویسے قسم اٹھاؤ اور اسے باہر بلاؤ، منیرافضل خاں نے اپنے مخصوص انداز میں باآواز بلند کلمہ پڑھا اور پھر قسم اٹھائی کہ حمیدا توں باہر آونج تیکوں کجھ نہ اکھیسوں، منیرافضل خاں ہک وار ول آکھیں تو چنگا جوان ائیں میکوں تیڈے اُتے اعتبار اے، اس نے دوسری مرتبہ منیرافضل خاں سے قسم اٹھوائی اور پھر وہ اپنے ہاتھ میں پکڑی کلاشن کو کوٹھڑی سے باہر پھینک کر دونوں ہاتھ فضا میں بلند کرکے جونہی فائر رینج میں آیا رائے مقصود کھرل نے جوانوں کو اشارہ کیا، بس پھر کیا تھا،سامنے موجود پولیس اہلکاروں نے فائر کھول دیا حمیدا ماچھی جی تھری کی ایک گولی لگنے سے بھی گر چکا تھا مگرجس پولیس والے نے زندگی میں کبھی گولی نہیں چلائی آج وہ بھی گرے ہوئے حمیدے ماچھی کی لاش کو گولیاں مار رہا تھا، حمیدے کے گرتے ہی فضا نعرہ تکبیر اور نعرہ حیدری سے گونج اٹھی پولیس والے نعرے مارتے ہوئے اپنے اپنے مورچوں سے نکل آئے پبلک بھی جو دور کھڑی تماشا دیکھ رہی تھی وہ بھی اندر آگئی ہم بھی کیکر کے درخت سے اتر کر اس جانب بھاگ پڑے، جب میں وہاں پہنچا تو حمیدا ماچھی مرچکا تھا اس کے جسم کا کوئی حصہ ایسا نہیں تھا جہاں گولیاں نہ لگی ہوں پورا جسم گولیوں سے چھلنی تھا جبکہ اللہ ڈتہ بوہڑ کے دائیں ہاتھ میں گولی لگنے سے پورا پنجہ ہی اڑا ہوا تھا اس کی آنتیں باہر نکلی پڑی تھیں، ایک بہت بڑا ہجوم وہاں اکٹھا ہو گیا تھا، پولیس اہلکار بہت پرجوش تھے وہ تو پرجوش ہوں جنہوں نے مقابلہ میں حصہ لیا تھا، پر انہاں دی پھوت وی جھلیندی نہ پئی ہئی جیڑھے تجھوں سڑک تے کھڑے ہن یا افسران کنوں لکے ودے ہَن او وی نعرے ودے مریندے ہَن، ایک دو پولیس والوں نے جوش میں آکر ہوائی فائرنگ بھی کی، ایک چیز دیکھ کر میں تھوڑا سا حیران ہوا کہ چند پولیس اہلکار مرے ہوئے حمیدے کی لاش کو ٹھڈے مار رہے تھے اور ساتھ نعرہ بازی بھی ہورہی تھی، کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی پبلک بھی بہت پرجوش تھی، میں یہ سب کچھ دیکھنے کے بعدزخمی اللہ ڈتہ بوہڑ کے آگے آکر کھڑا ہوگیا میرے ساتھ اس وقت عمردین قریشی (پیپلزپارٹی والا) بھی کھڑا تھا،اللہ ڈتہ کے دائیں ہاتھ کا پورا پنجہ ایسے اڑا پڑا تھا جو پہلے سمجھ نہیں آیا بعد میں معلوم ہوا کہ اس ہاتھ پر تھری نٹ تھری کی گولی لگی تھی اور وہ بھی صرف بیس فٹ کے فاصلے سے، ایک گولی اس کو ”وکھی“ میں لگی اور پیٹ والی سائیڈ سے نکلی تو اس گولی نے نکلتے ہوئے اس کی ساری آنتیں ہی باہر نکال دیں، میں اتنے شدیدزخمی اللہ ڈتہ کے بالکل ساتھ بیٹھ گیا اور اس کے کان میں ایک سوال کیا، شور اور اتنے شدید مضروب ہونے کی وجہ سے اسے میری بات یا تو سنائی نہیں دی یا سمجھ نہیں آئی، مجھے بیٹھا دیکھ کر عمردین قریشی بھی ساتھ ہی بیٹھ گیا، عمردین نے اللہ ڈتہ کی آنتیں اپنے ہاتھ سے پیٹ کے اندر کیں تو وہ پھر باہر نکل آئیں، اللہ ڈتہ مکمل ہوش میں تھا اور وہ یہ سب دیکھ رہا تھا جب عمردین قریشی نے دوبارہ آنتیں اندر کیں وہ ایک بار پھر باہر کونکل آئیں اب مجھے پتہ تھا کہ میں نے مرتے بندے سے ایک سوال کرنا ہے اس لئے میں نے ساتھ پڑی دو اینٹیں عمردین قریشی کے ہاتھ میں تھمائی اس نے دونوں اینٹیں آنتوں کو ہاتھ سے اندر کرکے اینٹیں اسکے آگے رکھ دیں اب آنتیں باہر نہ نکلیں اور میں اس کے اوپر جھک گیا اور اس سے ایک ہی سوال کیا کہ ملک سلطان محمود کو قتل کیندے آکھے کیتا ہاوے؟ اس نے میرے سوال کا جواب دینے کی بجائے مجھ سے ہی سوال کردیا، پانڑی پانڑی، میں نے ادھر اُدھر دیکھا کہ کہیں پانی ہوتو میں اسے پلواؤں مگر پانی کا نام و نشان کہیں نہیں تھا، ایک بار پھر ساتھ بیٹھے عمردین قریشی نے مجھے اشارہ کیا کہ تم اس سے بات چیت کرو میں پانی ڈھونڈتا ہوں میں نے دوبارہ اپنا منہ اس کے کان سے لگا کر پھر وہی سوال دہرایا کہ اللہ ڈتہ تساں ملک سلطان دا قتل کیندے آکھے کیتا ہاوے؟ ابھی وہ جواب دے ہی رہا تھا کہ عمردین قریشی ایک کھلے سے منہ والی بالٹی اٹھا لایا یہ بالٹی وہ تھی جس میں گدھے پانی پیتے ہوں گے (کیونکہ بالٹی میں موجود پانی گدلا بھی تھا اور اس میں تُوڑی(بھوسے) کے ذرات بھی موجود تھے) عمردین قریشی نے ہاتھ کا چلو بنا کر بالٹی میں سے پانی بھراا ور اس کے منہ میں انڈیل دیا اللہ ڈتہ نے فوراً پانی پی لیا اور پھر آنکھوں سے اشارہ کیا کہ مزید پانی، عمردین نے دوسرا چلو بھر کر اسے پانی پلایا اس دوران درجنوں لوگ اور پولیس والے ہمارا اور مرتے ہوئے اللہ ڈتہ بوہڑ کا یہ رومانس دیکھ رہے تھے، جب میں نے محسوس کیا کہ اب اس کی حالت کچھ بہتر ہوگئی ہے تو اپنا منہ لہولہان اللہ ڈتہ کے کان کے ساتھ ملاکر نہائت ملائمت سے پوچھا، ادا، اللہ ڈتہ ڈیکھ تئیں مرونجڑے بچدا نئیں توں، مردے ہوئیں اے تاں سچ ڈسائی ونج جو ملک سلطان داقتل کیندے آکھے کیتا ہاوے؟ اللہ ڈتہ مجھے بھرپور اور زندگی کی آس والی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا مجھے یقین تھا کہ اس موقع پر یہ سچ بول کرہی مرے گا، اس نے اپنا منہ بولنے کے لئے کھولا ہی تھا کہ اچانک بالکل اچانک ایک بوٹ پہنے پاؤں نے شدید زوردار انداز میں اس کے سرکو نشانہ بنایا اور ایک نہائت غلیظ موٹی سی گالی نکالی،میں چونکہ اس کے اوپر جھکا ہوا تھا اس حالت میں میں یہ نہیں دیکھ سکتا تھا کہ یہ حرکت کس نے کی ہے؟ میں نے بیٹھے بیٹھے یک دم رخ موڑ کر اوپر نگاہیں اٹھائیں تو دیکھا کہ وہ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
میں ایک بار پھراپنے قارئین اور فیس بک فرینڈز کا بے حد ممنون ہوں کہ انہوں نے پچھلی تمام اقساط اور خصوصاً چھٹی اور ساتویں قسط میں بھرپور رسپانس دیا ہے، اپنی پسندیدگی کا اظہار تبصرے تجزئیے اور کمنٹس کی صورت میں میری بے حد حوصلہ افزائی کی، میں آپ سب کا مشکور و ممنون ہوں، باالخصوص سب سے پہلے بڑے بھائی برادرم مجاہد جتوئی صاحب کا پھر جام منیراختر شاہین صاحب، مظہر خاں جتوئی، مرزا حبیب الرحمن صاحب، مجاہد کلیم صاحب، ریاض بلوچ صاحب، سید شاہ باز صاحب، معظم خاں جتوئی، عمر حیات گوپانگ صاحب، احمد خاں چانڈیہ، ندیم انڑ، جام احسن، احمد ضیاء، میاں شاہ زیب، عامر ممتاز، بلال لطیف خاں، بلال احمد، فدا خاں چانڈیہ، ملک سلیم سولنگی صاحب، سید سجاد علی، ملک ولید عباسی، حفیظ عباسی، سہیل صدیق اعوان، میاں صدیق صاحب، فیصل محمود جتوئی، چوہدری آصف شریف صاحب، رئیس فیصل برڑہ، اسرار چوہدری، انور رحیم خاں، اختر خاں کھوسہ، جام شکور صاحب، بلال فاروق صاحب، خالد حسین جتوئی، مدنی عباسی، ارشد خاں، جام شوکت صاحب، ملک انیس صاحب، عبدالقیوم عامر صاحب، نوید گیلانی صاحب، کیپیٹل کلاتھ خان پور، ملک عمرفاروق، عمر فاروق صاحب نعت خواں، دوست محمد کھوسہ، آصف اجمل چاچڑ، اصغر علی بھنڈر، ضیاء الدین قرشی، امجد نواز، آصف رضا، جاوید وزیرخان، ظفراقبال رند، فیض ساجد سولنگی، اسحاق سومرو، رائے ہمایوں منیر، راجہ عتیق، حاجی ریاض سنارا، سرائیکی پوئٹری، میاں موسیٰ صاحب، بلال خاں کورائی، اے ڈی بہرام،ابراہیم فریدی، میاں مطلوب میتلہ، ریاض احمد، فرخ منیر، فرھان حیدر بخاری، مسعود صادق صاحب ، رفیق صدیقی، ملک آصف، جام انیس سرور کیوڈ، مہر حبیب، فیضان علی، اعجاز لاڑ، سعید چانڈیہ، رئیس اقبال کھوکھر، جام ارشد پرہار، میاں نعیم احمد، احمد جتوئی، محمد مکی، عبدالقیوم عامر، ملک اشفاق فخری، مک محمود نواز،ملک شبیراحمد، ملک عبدالرزاق صاحب، امجد خاں دستی، خورشید خاں چانڈیہ، چاند رضوی، خالد آفتاب سعیدی، احسن فریدی، امان اللہ مہر، عبداللہ بلوچ، معراج الدین قریشی، احمد رضا، جام احسان، مولو خاں گھنیہ، محسن افضل ارائیں، اعجاز براٹھا، رئیس توقیر کھوکھر، ایاز خاں لغاری، رضوان ملک، وسیم خالق، اطہر سومرو،نورمحمد سومرو، فیصل چوہدری، امجد گھلو، ناصر بلوچ، ارشد رحمانی، قمرزمان جھانگلہ، جام احمد زبیر، سید صبغت اللہ سہروردی صاحب، جہانگیر مخلص صاحب، ظہور احمد بھٹی، حافظ دلشاد احمد، منیب چوہان، سہیل طارق، نصراللہ بڈانی، ارشد جتوئی، خورشید خاں کورائی، عدنان بلوچ، شاہد دھریجہ صاحب، میاں خالد محمود قریشی ایڈوکیٹ صاحب، عرفان تابش صاحب، دلشاد ظفر صاحب، ملک آفتاب صاحب آف خانبیلہ، محمدیار خاں آف ظاہر پیر، فیصل محمود جتوئی، عاشق سومرو، سعات بلوچ، عبدالمجید جتوئی، فہیم خاں جتوئی، جام منیرجام، جام عمران لاڑ، ملک فرمان جان، عدیل مہر، طاہر جتوئی، جام ذوالفقار علی بھٹو، زاہد محمود، شاہد حسین کے پی آر، شاہد عباسی، عمرفاروق ملک صاحب، دلدار خالد صاحب، ملک ندیم حسن کراچی، شریف گورگیج، بلال فاروق، جام محبوب عالم، محمد سلیم صاحب، طارق سرفراز ترہیلی، طاہر خاں، عمران بشیرلاڑ، ملک مظہر وسیر، ابورضوان گروان، یاسر حیدر، جاویداختر، کامران کامی، محسن لشاری، ندیم انڑ، احمد سکھیرا، اعجاز رحمانی، زاہد حسین کھوکھر، شوکت علی زاہد عاصم غنی، ندیم افضل نارو، وسیم خالق، رانا اعظم، رفیق شاہ آصف جمیل چوہان، عبدالرحیم خاں سرائی، خالد گورگیج (صھافی نہیں) محمد نعیم، ابراہیم زبیر، اسماعیل عباسی، نسیم راؤ، میاں نعیم اختر، ابومقیت، شعیب گل، واجد محمود، ربانی جٹ، صدیق چاچڑ، جام ساحر، عبدالروف دانش، غلام نازک، فرھان شاکر، عرفان نجڑا، منصورلشاری، محمداحسن، وسیم خالق، رانا صابر حسین، طارق بلوچ صاحب، سید جاوید حسین شاہ، روئف خاں گوپانگ، محمد عمران عبدالغفور،تے میاں احسن صاحب
!!! اگر کوئی معز ز دوست دا ناں رہ گے تاں اگلی قسط وچ انہاں دا شکریہ ول ادا کر ڈیسوں، جے ناں ڈو وار لکھیج گے تاں نشان دہی کریسو چا،ناں لکھدے دیر تھی گئے اے، میں کجھ دوستیں کوں اٹھ وجے دا ٹائم ڈتا ہویا اے،
قمر اقبال جتوئی 03006734560
0 تبصرے