
تحریر : سینئر صحافی قمر اقبال جتوئی
ساتویں قسط!!! صادق شاہ سیریز کی جبکہ خانپور کی تاریخ کے پہلے اور اصلی پلس مقابلہ کی پہلی قسط ملاحظہ فرمائیے گا
خان پور کی تاریخ کا پہلا اصلی پولیس مقابلہ
جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ صادق شاہ کی گرفتاری کے وقت بھی چوہدری حفیظ اللہ اور ایس ایچ او سٹی منیرافضل خاں کو صادق شاہ کے ساتھیوں کی جانب سے سنگین نتائج کی دھمکیاں ملتی رہتی تھیں، منیرافضل خاں نے اپنی رہائش گاہ پر باقاعدہ گارد بھی لگوائی ہوئی تھی جبکہ چوہدری حفیظ اس معاملے میں لاپرواہ تھا، اپنی حفاظت خود اختیاری تو اس نے قائم کی ہوئی تھی مگر باقاعدہ گارد کی تعنیاتی اس نے نہیں کروا رکھی تھی،
خان پور پولیس کو معلوم تھا کہ صادق شاہ کے تین ساتھی ستاری گوپانگ، اللہ ڈتہ بوہڑ اور حمیدا ماچھی ابھی آزاد ہیں اور یہ ہیں بھی خطرناک،
چوہدری حفیظ نے حمیدے ماچھی کے متعدد رشتے داروں کو پکڑا ہوا تھا تاکہ اس پر دباؤ بڑھایا جائے اور وہ خود بخود پیش ہوجائے مگر چوہدری حفیظ کو اس کا ابھی اتنا علم نہیں تھا کہ وہ کس مٹی سے بنا ہوا ہے
چوہدری حفیظ کے مطابق آخرکار ایک معتبر بندے کو درمیان میں ڈال کر عہدوپیمان کئے کہ اگر چوہدری حفیظ ہم سب کو رہا کردے تو ہم یہ وعدہ کرتے ہیں کہ جس دن حمیدا یا اللہ ڈتہ گھر آئے ہم آپ کو خبر کریں گے، وعدے وعید کے بعد کوڈ ورڈ بھی طے ہو گیا کہ اگروہ آئیں اور تم ہمیں تھانے صدر کے فون نمبر 3379 پر اطلاع دو گے کہ میں رمضان بول رہاہوں چوہدری حفیظ کو بتادو کہ تمہارا سامان کراچی سے آگیا ہے
یکم جون 1994کو صبح دسبجے تھانہ صدر کے نمبر پر ایک کال موصول ہوتی ہے کہ میں رمضان بول رہا ہوں چوہدری حفیظ کو بتادیں کہ اس کا سامان کراچی سے آج صبح سویرے کا پہنچا ہوا ہے، اس کوڈ کا تھانے کے منشی کو علم تھا وہ بھاگا بھاگا چوہدری حفیظ کے کمرے میں گیا جہاں کچھ لوگ بیٹھے تھے منشی نے چوہدری کے کان میں یہ کوڈ ڈالا تو چوہدری جمپ مار کر کھڑا ہوگیا صرف منشی سے یہ پوچھا اس نے بتایا کہ میں کہاں ہوں؟ جی سر رمضان کہتا ہے کہ میں چوک دین پور والے پی سی او میں موجود ہوں چوہدری حفیظ نے کسی کا انتظار کئے بغیر گیٹ پر موجود سنتری ڈیوٹی دینے والے کانسٹیبل عبدالغنی کو اس کی رائفل سمیت اپنے موٹر سائیکل کے پیچھے بٹھایا اور مخبر کی جانب روانہ ہوگئے چوک دین پور کے ایک غیرسرکاری پی سی او پر ان کا مخبر انتظار کررہا تھا، چوہدری حفیظ نے اس سے مزید معلومات لیں اور اسے روانہ کیا وہ بندہ پی سی او سے باہر نکلا اپنا سائیکل تھاما اور بستی ماچھیاں کی جانب روانہ ہو گیا، جبکہ چوہدری حفیظ اپنے گھرواقع ہکڑہ بستی پہنچ جاتاہے وہاں سے ڈی ایس پی رائے مقصود کھرل کو فون کرکے صورتحال بارے آگاہ کرتے ہیں ڈی ایس پی تھانہ سٹی اور تھانہ صدرمیں فون کرکے ہدایات دیتا ہے کہ اپنی نفری فوری طور پر گاڑیاں مع اسلحہ ایمونیشن چوہدری حفیظ کے گھر پہنچو
تھانہ سٹی سے پرائیویٹ جیپ میں ارشد خاں چانڈیہ اے ایس آئی، ملک محمد اسلم مسن ہیڈ کانسٹیبل، فدا حسین عباسی، ملک خالد ماچھی کانسٹیبلان جبکہ سرکاری گاڑی میں اے ایس آئی چوہدری محمدسلیم،کانسٹیبلان مقبول حسین،شبیرحسین شاہ ڈرائیور غلام قادر عرف ماما کے ساتھ اسلحہ ایمونیشن سمیت چوہدری حفیظ کے گھرپہنچتے ہیں
چوہدری حفیظ اپنی جیپ میں سرکاری اور ذاتی اسلحہ سمیت یہ تین گاڑیاں بستی کوٹلہ مائی کی جانب روانہ ہیں بستی میں پہنچ کر یہ لوگ تین حصوں میں تقسیم ہوجاتے ہیں ایک حصہ میں چوہدری حفیظ وغیرہ دوسری ٹیم مقبول حسین عبدالغنی اور ماما غلام قادرتیسری ٹیم ارشد خاں چانڈیہ ہمراہ ملک اسلم مسن، فدا عباسی اور محمد خالد ماچھی ہیں،
یہ لوگ اب بستی ماچھیاں موضع کوٹلہ مائی پہنچ گئے مخبر نے اشارۃ بتایا کہ ابھی تک دونوں یعنی حمیدا ماچھی اور اللہ ڈتہ بوہڑ گھر ہی میں ہیں اب وہ کسی شریف بے ضرر بندے کا گھر تو نہیں تھا کہ یہ منہ اٹھا کر گھر میں گھس جاتے اب موبائل کا دور بھی نہیں تھا کہ ایک دوسرے کو ہدایات یا مشورہ دے یا لے لیتے، فیصلہ یہاں بھی چوہدری حفیظ نے ہی کرنا تھا اس نے آخرکار فیصلہ کیا کہ ان کی کمیں گاہ کی جانب نہیں جانا ان کو اپنی کمیں گاہ سے نکالنا ہے اس کاطریقہ ایک ہی تھا کہ تینوں چھاپہ مارپارٹیاں مختلف سمتوں میں جا کر فائرنگ شروع کردی اتنی خوفناک فائرنگ کی گئی کہ چند لمحوں بعد ہی حمیدا ماچھی اور اللہ ڈتہ بوہڑ بغیر قمیضوں کے صرف بنیان شلوار پہنے اور بدن پر گولیوں کے میگزین سجائے کاندھے پر گولیوں سے بھرے بیگ اٹھائے اور کلاشنوں سے فائرنگ کرتے باہر نکل آئے، یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ صادق شاہ کے بعد یہ تینوں مزدوروں کے روپ میں کراچی سے ٹرین کے ذریعے خان پور آئے تو ان تینوں کے پاس بستر بندھے ہوئے تھے اور تینوں بستروں میں ہی تین کلاش کوف اور سینکڑوں گولیاں تھیں، تینوں علی الصبح بستر اٹھائے پیدل بستی ماچھیاں موضع کوٹلہ مائی پہنچ گئے، اللہ ڈتہ بوہڑ اور حمیدے ماچھی کے گھر دو مختلف بستیوں میں تھے مگر دونوں بستیاں قریب قریب تھیں، یہ لوگ اپنے تئیں نہائت خفیہ طریقے سے گھر پہنچے تھے مگر یہ کیسے ہوسکتا تھا کہ وہ گھر پہنچے اور گھر کے ساتھ ہی منسلک بندے کا سسرال ہو اور سالوں کو پتہ نہ چلے ایسے بھلا ہوسکتا ہے؟ وہ سالے جو ایک عرصہ تک پولیس کے نجی ٹارچر سیلوں میں کئی راتیں گزار کر آئے تھے کیا انہیں اپنی جان عزیز نہیں تھی؟ پھر آخر وہ پولیس کے ساتھ کوئی عہدوپیمان بھی کرکے آئے تھے اگر پولیس کو یہ اطلاع مل جاتی کہ حمیدا ماچھی اپنے ساتھیوں سمیت آیا تھا واردات کرنے کے بعد واپس جانے میں کامیاب ہوگیا ہے تو سالوں پر جو قیامت ٹلی ہوئی تھی وہ دوبارہ بھی آسکتی تھی اس لئے تو اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے۔
گروپ کی کمان صادق شاہ کے بعد ستاری گوپانگ کے پاس تھی، یہ بھی بتا دوں کہ ڈکیتیوں اور چوری چکاری سے پہلے ستاری گوپانگ اور اللہ ڈتہ بوہڑ دونوں اُساری کے مستری کا کام کرتے تھے، جبکہ حمیدا ماچھی درزی کاکام کرتا تھا۔
ستاری گوپانگ نے جب حمیدے ماچھی کا گھر دیکھاتو اس نے اسے غیر محفوظ قرار دیتے ہوئے اپنا بوریا بستر لپیٹ کر نزدیکی قبرستان میں جاکر سو گیا، ستاری کہتا ہے کہ ہم لوگ ہرقسم کے ماحول میں پنپنے کے عادی ہیں اس لئے مجھے نہ تو قبرستان کا خوف تھا نہ ہی مچھروں کی بھوں بھوں مجھے ڈراتی تھی بس صرف یہ خوف ضرور تھا کہ قبرستان میں سانپ بچھو کثرت سے ہوتے ہیں ان کا خوف واقعی تھا،اس نے گرفتاری کے بعد مجھے بتایا تھا کہ جونہی پہلی گولی چلنے کی آواز آئی ساتھ والے قبرستان میں ڈیرہ لگائے میں فوراً سمجھ گیا کہ پرائے پتر پُج گن۔ وہ اُٹھا اپنا بوریا بستر اٹھایا، گورکن کی جھونپڑی سے اس نے مٹی کھودنے والا ایک چھوٹا ساپھاوڑا بھی لے لیا اورقریبی نہر کا کنارہ پکڑ کر ان دونوں کو (بقول اس کے) اللہ کے حوالے کرکے آگے نکل گیا، یہ ہم بعد میں آپ کو بتائیں گے کہ وہ کس جانب اور کہاں نکلا تھا مٹی کھودنے والاپھاوڑہ اس کے کس کام آیا تھا؟ ابھی آپ صرف خان پور کی تاریخ کا پہلا اصلی پولیس مقابلہ ہوتے دیکھئے گا۔
حمیدا ماچھی اور اللہ ڈتہ بوہڑ اپنی کمیں گاہ سے باہر آگئے دونوں نے کندھے سے کندھا ملاکر جس سمت سے فائر آرہاتھا اس جانب اپنی گنوں کا رخ کرکے فائر کرنا شروع کردیا، بہت جلددونوں کو اندازہ ہوگیا کہ ہمارے اوپر تین جانب سے حملہ کیا جارہا تو انہوں نے رک کر فائرنگ کرنے سے زیادہ بہتر سمجھا کہ اب باغو بہار روڈ کی جانب اپنا منہ کرکے ان کا مقابلہ کیا جائے
انہوں نے اپنا رخ مشرق کی جانب کرلیا اور بھاگنا شروع کردیاچوہدری حفیظ کے پاس جی تھری ہے وہ انہیں للکار کر رکنے اور ہتھیار پھینکنے کا کہتا ہے وہ رکنے اور ہتھیار پھینکنے کی بجائے اپنی گنوں کا رخ اس کی جانب کرکے فائر شروع کردیتے ہیں جب انہیں احساس ہوتا ہے کہ اس کے پاس جی تھری ہے تو اس سے فاصلہ بڑھا لیتے ہیں تاکہ جی تھری کی رینج سے نکل جائیں اس لئے اپنا رخ کھیتوں اورفصلات کی جانب موڑ لیتے ہیں کھیتوں کی جانب ارشد خاں چانڈیہ مع حوالدار ملک اسلم مسن، فدا عباسی اور ملک خالدماچھی موجود ہیں وہ سرکاری رائفلوں سے فائر کرتے ہیں مگر رائفل اور وہ بھی سرکاری دور ہو 1994کا تو وہ کیا کام کرتی رائفل اپنی مرضی سے چل رہی تھی یعنی کسی وقت چل پڑتی اور کسی وقت گولی پھنس جاتی، تیسری جانب اے ایس آئی چوہدری سلیم ہے ملزمان کو اندازہ ہو گیا کہ اگر ہم بھی ہر فائر کے جواب میں فائر کرتے رہے تو ہماری گولیاں بہت جلد ختم ہو جائینگی اس لئے وہ کھیتوں اور فصلات میں گھس گئے
قارئین ان دنوں ہمارے علاقے میں اور خاص طور موضع کوٹلہ مائی میں گنے کی فصل کاشت نہیں کی جاتی تھی گندم کی کٹائی آج کل اپریل میں ہی ہو جاتی ہے مگر اُن دنوں کٹائی مئی میں ہوئی تھی اور ابھی تمام کھیتوں میں کٹائی کے بعد والی صورتحال تھی یعنی گندم کے پودے کا وہ حصہ جو کٹائی کے بعد چار پانچ انچ کا ابھی زمین میں موجود ہوتا ہے(اسے سرائیکی میں ناڑ کہتے ہیں) اس پر چلنا اور وہ بھی ننگے پاؤں؟ کیسا محسوس کررہے ہوں گے دونوں ڈکیت!
جوتیاں ٹوٹنے کے بعد ان کا کھیتوں میں چلنا بہت مشکل اور دشوار ہوگیا تھا، یاد رہے کہ چوہدری حفیظ اپنی ذاتی جیپ میں تھا ارشد خاں چانڈیہ بھی ذاتی جیپ پر اور چوہدری سلیم اے ایس آئی سرکاری موبائل میں تینوں گاڑیاں اب کھیتوں میں تو نہیں جاسکتی تھیں اس لئے تینوں گاڑیاں دو مختلف سمتوں میں ان کے تعاقب میں تھیں جبکہ وہ دونوں کھیتوں میں، سفر جاری ہے بستی ماچھیاں سے بستی مرید خاں سرائی، وہاں سے کوٹلہ مائی اور کوٹلہ مائی سے بستی ڈاہراں، بستی ڈاہراں سے بستی کورائیاں، بستی کورائیاں سے بستی ڈنگراں یعنی ٹارگٹ ہے کہ باغوبہار روڈ پر پہنچنا ہے،راستے میں ایک جگہ پر ملزمان ایک سائیکل سوار سے اس کا سائیکل چھین کر اپنا سفر شروع کرتے ہیں تو ملک خالدماچھی کانسٹیبل ایک بستی سے گھر کے باہر کھڑا گھوڑا زبردستی کھول کر اس پر سوار ہوکر ملزمان کا پیچھا شروع کردیتا ہے جونہی وہ ملزمان کے نزدیک ہوتا ہے ملزمان سائیکل پھینک کر اس پر کلاشن سے فائرنگ کرتے ہیں جس کی وجہ سے وہ گھوڑے سے جلدی اترنے کی کوشش میں گرپڑتا ہے پھر سرپٹ ان کے پیچھے بھاگتا ہے یہاں آپ یہ یاد رکھیں کہ ملک خالدماچھی کے پاس جو رائفل ہے وہ سرکاری ہے اور وہ چلتی بھی نہیں ہے بس لاٹھی کا کام دے سکتی ہے، ننگے پاؤں جون کی تپتی دوپہر اور پیروں کے نیچے گندم کے کٹے ہوئے ناڑ، کیسے چل سکتے تھے وہ؟ ایک جگہ پر انہوں نے سامنے سے آتے ہوئے مقامی معزز شخص مولانا نذیراحمد ڈاہر سے ان کی جوتی اور سر کی چادر چھین لی اب ایک بندے کو جوتی میسر ہوگئی ہے ان دونوں کی ٹور برابر نہیں رہی جوتی پہنے حمیدے ماچھی کی رفتاراللہ ڈتہ سے تیز ہوگئی توایک کھیت میں کام کرتی ڈنگر برادری کی ایک خاتون سے انہوں نے ایک اورجوتی چھین لی، مگر یہ جوتی اللہ ڈتے کو راس نہیں آرہی کھیت میں جاتا ہے تو گندم کے کٹے ہوئے ناڑ اس کے پاؤں چھلنی کررہے ہوتے ہیں اسی دوران ایک اور گھر ان کے قریب آجاتا ہے یہ گھر ہے رحیم بخش کورائی کا، اللہ ڈتہ کلاشن سے مسلح اس گھر میں گھس جاتا ہے خاتون خانہ مال مویشی کو گھاس ڈال رہی ہے اچانک ایک غیرمرد کو گھر میں گھستے دیکھ کر شورمچانے کے لئے یا کچھ بولنے کے لئے آواز نکالنا چاہتی ہے اللہ ڈتہ کلاشن سیدھی کرتا ہے خاتون کی آواز وہیں دب جاتی ہے وہ سامنے دیکھتا ہے ایک کھسہ پڑا ہے چند سیکنڈ میں وہ کھسہ پہنتا ہے اور باہر نکل کر حمیدے سے برابری ٹور پر آجاتا ہے، ادھر پولیس کاسفر جاری ہے دو کانسٹیبل پیدل کھیتوں اور پگڈنڈیوں پر ان کا تعاقب جاری رکھے ہوئے ہیں مگر کلاشن کی رینج سے باہر نکل کر، ان کے پیچھے سڑک پر ایک گاڑی میں چوہدری حفیظ وغیرہ اور دوسری جیپ میں ارشد خاں چانڈیہ فدا عباسی، ملک اسلم مسن ہیں سرکاری گاڑی میں چوہدری سلیم ایک کانسٹیبل ڈرائیور ماما غلام قادرکے ہمراہ ہے، یہ لوگ بستی ڈاہراں والی سے باہر نکل کر بستی کورائیاں پہنچتے ہیں تو جلدی میں موڑ کاٹتے ہوئے ارشد خاں چانڈیہ کی جیپ الٹ جاتی ہے خوش قسمتی سے تمام افراد زخمی ہونے سے بچ جاتے ہیں مگر سرکاری ناکارہ اسلحہ مٹی میں گرجانے کی وجہ سے مزید ناکارہ ہوجاتا ہے، اتنے میں ماما غلام قادر چوہدری حفیظ کے ہمراہ ان کے پاس پہنچ جاتے ہیں یہ لوگ الٹی ہوئی جیپ کو جلدی جلدی سیدھا کرتے ہیں اور پھر اسلحہ اس میں لوڈ کرتے ہیں اور ڈاکوں کے تعاقب میں پھر سفر جاری کرتے ہیں اس سچویشن میں ڈکیتوں کو تھوڑا ریلیف مل جاتا ہے ان کا فاصلہ پولیس سے ذرا زیادہ ہوتا محسوس ہوتا ہے پولیس کو اس کا خدشہ ہے کہ اگروہ ہماری آنکھوں سے دور ہوگئے تو پھر ان کو ڈھونڈنا مشکل نہ ہوجائے اسی اثناء میں سامنے سے ایک موٹر سائیکل سوار آتا ہے تو فدا عباسی اس سے موٹر سائیکل مانگتاہے وہ دینے میں ہچکچاہٹ کرتا ہے تو پھر آخرکار اس سے زبردستی چھین لیا جاتا ہے اور ڈاکوں کے تعاقب میں روانہ ہوجاتا ہے اسی دوران چوہدری حفیظ پولیس افسران کو بار بار صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئے مزید کمک اور نفری مانگنے کی استدعا کرتا رہتا ہے اور ڈی ایس پی رائے مقصود مرحوم کو بتاتا ہے کہ یہ لوگ اب باغوبہار روڈ کے قریب پہنچنے والے ہیں اگر یہ باغوبہارروڈ پرپہنچ کر کسی سے کوئی سواری چھیننے میں کامیاب ہوگئے تو ہمارے لئے بڑی مشکل ہوجائے گا ان کا تعاقب جاری رکھنا، رائے مقصود کھرل صورتحال سے ایس ایس پی تحسین انور شاہ کو آگاہ کرتے ہیں وہ سرکل بھر کی پولیس کو حکم دیتے ہیں کہ باغوبہار روڈ پر ناکہ بندی کریں مگر یہاں ایک ایک منٹ بعد صورتحال تبدیل ہورہی ہے
ڈی ایس پی رائے مقصود کھرل اپنے ڈرائیور محمد افضل اور گن مین کانسٹیبل امجد رشید سندھو (جو اس وقت انسپکٹر بن چکے ہیں) کے ہمراہ اسلحے سے لیس ہوکر باغو بہار روڈ کی جانب روانہ ہو جاتے ہیں، مگر اسی کشمکش میں ملزمان باغوبہار روڈ پر پہنچنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں، سب سے پہلے وہ ایک ڈالے کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں اس میں ناکام ہوجانے پر ایک موٹر سائیکل سوار کو رکنے کا اشارہ کرتے ہیں موٹر سائیکل سوار ہے چوہدری ذوالفقار نامی بندہ جو کہ پاسکو میں پرچیزانسپکٹر ہے وہ کبڈی کا کھلاڑی رہ چکا ہے اور تلمبہ کا رہائشی ہے جب اس کو دو مسلح افراد روکتے ہیں تو وہ رکنے کی بجائے اپنے موٹر سائیکل کی اسپیڈ بڑھا تے ہوئے ان کے سامنے سے گذرنے لگتا ہے تو اللہ ڈتہ کواس پر غصہ آتا ہے اوروہ سیدھا فائر کردیتا ہے گولی ذوالفقار کے سینے میں لگتی ہے اور وہ موٹر سائیکل سمیت ہی موقع پر گر جاتا ہے انہیں کسی سوار یا انسان کی موت سے کیا غرض جب عزرائیل خود ان کے آگے پیچھے پھررہا تھا، حمیدا جاکر موٹر سائیکل کھڑا کرکے اسے کک مارتا ہے وہ اسٹارٹ نہیں ہوتا اور ککیں مارتا ہے مگر ان دونوں کو یہ نہیں معلوم کے یہ موٹر سائیکل یاماہا ہے اور جب یاماہا گر جاتا ہے تو آسانی سے اسٹارٹ نہیں ہوتا، یاماہا ٹواسٹروک موٹر سائیکل ہے 4 اسٹروک نہیں کہ گرنے کے بعد بھی اسٹارٹ ہوجائے، وہ اب سمجھ گئے ہیں کہ اس کو دھکا لگانا پڑے گا حمیدا ماچھی موٹر سائیکل پر بیٹھتاہے اللہ ڈتہ بوہڑ دھکا لگاتا ہے اسی دوران چوہدری حفیظ ان کے قریب پہنچ جاتا ہے وہ ملزمان کی جانب فائرکرتا ہے ملزمان بھی دھکا چھوڑ کر ایک آدھ فائر کرکے حفیظ کو جواب دیتے ہیں حفیظسڑک کنارے شیشم کے ایک درخت کی اوٹ لے لیتا اور ایک اور فائر کرتا ہے حفیظ کو اچھی طرح اندازہ ہے کہ اگر یہ اس موقع پر موٹر سائیکل اسٹارٹ کرکے فرار ہوگئے تو پھر پولیس کے لئے انہیں ڈھونڈنا اور پکڑنا ایک مشکل ترین عمل ہوگا مگر وہ یہ بھی جانتا ہے کہ اس کے پاس گولیاں بہت تھوڑی رہ گئی ہیں سوچ سمجھ کر گولیاں چلانی ہیں حفیظ کے دیگر ساتھی پریشان ہیں کہ سرکاری اسلحہ چلنے سے انکاری تھا، ذاتی اسلحہ چل تو رہا تھامگر گولیاں ختم ہونے کو تھیں کہ چوہدری حفیظ سڑک کنارے درخت کی اوٹ لے کر تھوڑے تھوڑے وقفے سے جی تھری رائفل کے ذریعے فائر بھی کررہا ہے اور پریشان بھی ہے کہ اتنی دیر ہوگئی ہے ہمیں ہائی کمان کی جانب سے کوئی کمک نہیں مل رہی یہ دس بارہ گولیاں کتنی دیر تک میں ان سے لڑ سکتا ہوں کہ اچانک حفیظ کی نگاہ پڑتی ہے خان پورشہر والی جانب اسے ڈی ایس پی رائے مقصود کی گاڑی دھول اڑاتی بڑی تیزی سے ملزمان کی جانب آتی دکھائی دی،حفیظ چوہدری کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی اسے تھوڑی سی نہیں ڈھیر ساری تسلی ہوئی ملزمان نے بھی ڈی ایس پی کی گاڑی دیکھ لی ہے اب انہوں نے موٹر سائیکل اسٹارٹ کرنے کی کوشش ترک کرکے ایک چھٹا یعنی کلاشن کا برسٹ ڈی ایس پی کی گاڑی کی جانب رخ کرکے نکالتے ہیں گاڑی جسے محمد افضل نامی ڈرائیور چلا رہا ہوتا ہے یک دم بریک لگاتا ہے ٹائروں کی چرچراہٹ فضا میں بلند ہوتی ہے اگر ڈرائیور یہاں بروقت ایمرجنسی بریک نہ لگاتا تو جس تیزی سے گاڑی آرہی تھی تو یہ بالکل ملزمان کے سامنے آجاتی اور وہ ایک لمحہ بھی ضائع نہ کرتے اور آج ہم رائے مقصود کھرل کو فوت شدہ نہیں شہید لکھ رہے ہوتے،گاڑی کے رکنے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اب ملزمان کو راہ فرار سوجھتی ہے جہاں وہ موجود ہیں اس کے ساتھ ہی اینٹوں کا ٰایک بھٹہ ہے وہ بھٹے کی جانب رخ کرتے ہیں بھٹہ میں گدھوں کو باندھنے کے لئے چھوٹی چھوٹی پانچ کوٹھڑیاں بنی ہوئی ہیں، پہلے وہ سامنے بنے ایک گیراج سے پانی کا گھڑہ اٹھاتے ہیں وہ دیکھتے ہیں اس گھڑے میں پانی بہت تھوڑا ہے دوسرے گھڑہ بھی ادھورہ ایک گھڑہ دوسرے گھڑے میں انڈیلتے ہیں اور پھر وہ گھڑا اٹھاکر ایک کوٹھڑی میں گھس جاتے ہیں، اتنے میں پیچھے رہ جانے والی پولیس کی نفری بھی آجاتی ہے اور ڈی ایس پی رائے مقصود کھرل اور ان کے ساتھ دوسپاہی بالکل تازہ دم ہیں جبکہ وہاں پہنچنے والے اکٹھے ہوجانے والے چوہدری حفیظ، ارشد خاں چانڈیہ، چوہدری سلیم ملک اسلم مسن فدا عباسی محمد خالد وغیرہ مسلسل 6کلومیٹر سے کبھی پیدل اور کبھی گاڑی میں، آپ خود سوچیں اُن کی کیا حالت ہوگی، جون کا مہینہ دن کے گیارہ بجے آگ برساتا سورج اور پھر اس کی تپش 6کلومیٹر کا دشوار گزار اور موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے یہ سفر انہوں نے کیا تھا،
ان کی حالت یہ تھی کہ ہوکڑی ساریں کوں چڑھی پئی ہئی!
ادھر حمیدا ماچھی اورا للہ ڈتہ جس کوٹھڑی میں گھستے ہیں وہاں تین گدھے بندھے ہوئے ہوتے ہیں وہ پہلے انہیں کھول کر باہر نکال دیتے ہیں پھر گھڑے سے پانی پینے لگ جاتے ہیں ان کو بھی اب تازہ دم ہونا ہے اور باہر والوں کو بھی،ڈی ایس پی رائے مقصود کھرل نیچے اتر کر ایک منجھے ہوئے کمانڈر کی طرح کمان سنبھال لیتے ہیں وہ ڈاکوؤں کا مسلسل پیچھا کرنے والے جوانوں کو سانس لینے اور پانی شانی پینے کی مہلت دیتے ہیں اس دوران تھانہ سٹی سے مزید نفری آجاتی ہیاس نفری میں سے میاں مشتاق احمد سی ون، غلام یاسین جتوئی اے ایس آئی تھانہ سٹی کو بھٹہ کے اوپر چڑھا دیتے ہیں تاکہ وہ ڈاکوؤں کی سرگرمی پر نظر رکھیں اور نیچے والوں کو آگاہ کرتے ہیں غلام یاسین جتوئی وہیں موجود رہتا ہے اور مشتاق احمد کو نیچے بھیج کر اسے کہتا ہے کہ وہ ڈی ایس پی صاحب کو بتائیں کہ ڈکیت ایک کوٹھڑی میں موجود ہیں اور یہاں سے نظر بھی آرہے ہیں یہ اطلاع جونہی حفیظ جن کو ملتی ہے وہ پیتے پانی کا کٹورہ ادھورہ چھوڑ کررائے مقصود کھرل ڈی ایس پی کی گاڑی سے گولیاں نکالتا ہے، چار میگزین گولیوں سے بھرتا ہے اور یاسین جتوئی والی جگہ پر پہنچ جاتا ہے اب اے ایس آئی غلام یاسین جتوئی میاں مشتاق احمد سی ون یہ تینوں اینٹوں کے دڑے سے سر اوپر کرکے دیکھتے ہیں کہ دونوں ملزمان کس سچویشن میں ہیں ان کو صورتحال واضح ہوتی نظر نہیں آرہی کیونکہ وہ باہر دھوپ میں ہیں اور ملزمان چھوٹی سی کوٹھڑی میں جہاں مکمل طور پر اندھیرے کا راج ہے، اس لئے سر مزید اوپر کرکے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اچانک ایک پورا برسٹ ان کی جانب چلایا جاتا ہے،اے ایس آئی غلام یاسین جتوئی گر جاتا ہے !!!!!!!!!!!!!!!! پھر کیا ہوا؟ اگلی قسط میں !!! میں اپنے قارئین اور فیس بک فرینڈز کا بے حد ممنون ہوں کہ انہوں نے پچھلی تمام اقساط اور خصوصاً چھٹی قسط میں بھرپور رسپانس دیا ہے، اپنی پسندیدگی کا اظہار اور کمنٹس کی صورت میں میری بے حد حوصلہ افزائی کی، میں آپ سب کا مشکور و ممنون ہوں، باالخصوص جام منیراختر شاہین صاحب، مظہر خاں جتوئی، مرزا حبیب الرحمن صاحب، مجاہد کلیم صاحب،رئیس حسین چاچڑ، ریاض بلوچ صاحب، سید شاہ باز صاحب، معظم خاں جتوئی، عمر حیات گوپانگ صاحب، احمد خاں چانڈیہ، ندیم انڑ، جام احسن، احمد ضیاء، میاں شاہ زیب، عامر ممتاز، بلال لطیف خاں، بلال احمد، فدا خاں چانڈیہ، ملک سلیم سولنگی صاحب، سید سجاد علی، ملک ولید عباسی، حفیظ عباسی، سہیل صدیق اعوان، میاں صدیق صاحب، فیصل محمود جتوئی، چوہدری آصف شریف صاحب، رئیس فیصل برڑہ، اسرار چوہدری، انور رحیم خاں، اختر خاں کھوسہ، جام شکور صاحب، بلال فاروق صاحب، خالد حسین جتوئی، مدنی عباسی، ارشد خاں، جام شوکت صاحب، ملک انیس صاحب، عبدالقیوم عامر صاحب، نوید گیلانی صاحب، کیپیٹل کلاتھ خان پور، ملک عمرفاروق، عمر فاروق صاحب نعت خواں، دوست محمد کھوسہ، آصف اجمل چاچڑ، اصغر علی بھنڈر، ضیاء الدین قرشی، امجد نواز، آصف رضا، جاوید وزیر، ظفراقبال رند، فیض ساجد سولنگی، اسحاق سومرو، رائے ہمایوں منیر، راجہ عتیق، حاجی ریاض سنارا، سرائیکی پوئٹری، میاں موسیٰ صاحب،چوہدری طارق یعقوب ، بلال خاں کورائی، اے ڈی بہرام،ابراہیم فریدی، میاں مطلوب میتلہ، ریاض احمد، فرخ منیر، فرھان حیدر بخاری، مسعود صادق صاحب ، رفیق صدیقی، ملک آصف، جام انیس سرور کیوڈ، مہر حبیب، فیضان علی، اعجاز لاڑ، سعید چانڈیہ، رئیس اقبال کھوکھر، جام ارشد پرہار، میاں نعیم احمد، احمد جتوئی، محمد مکی، عبدالقیوم عامر، ملک اشفاق فخری، مدنی عباسی،ملک محمود نواز،ملک شبیراحمد، ملک عبدالرزاق صاحب، امجد خاں دستی، خورشید خاں چانڈیہ، چاند رضوی، خالد آفتاب سعیدی، احسن فریدی، امان اللہ مہر، عبداللہ بلوچ، معراج الدین قریشی، احمد رضا، جام احسان، مولو خاں گھنیہ، غلام علی تراب ،محسن افضل ارائیں، اعجاز براٹھا، رئیس توقیر کھوکھر، ایاز خاں لغاری، رضوان ملک، وسیم خالق، اطہر سومرو،نورمحمد سومرو، فیصل چوہدری، امجد گھلو، ناصر بلوچ، ارشد رحمانی، قمرزمان جھانگلہ، جام احمد زبیر، سید صبغت اللہ سہروردی صاحب!!! اگر کوئی معز ز دوست دا ناں رہ گے تاں اگلی قسط وچ انہاں دا شکریہ ول ادا کر ڈیسوں، ناں لکھدے دیر تھی گئے اے، میں کجھ دوستیں کوں ست وجے دا ٹائم ڈتا ہویا اے،
قمر اقبال جتوئی 03006734560
0 تبصرے