-->

پولیس کے 30 سال پرانے ریکارڈ سے لرزہ خیر کہانی سینئر صحافی قمر اقبال جتوئی کی زبانی ( چوتھی قسط ۔۔۔۔۔ )

Published from Blogger Prime Android App

تحریر : سینئر صحافی قمر اقبال جتوئی

چوتھی قسط !!  معزز قارئین ، جیسا کہ آپ میں سے اکثر جانتے ہیں کہ اس قسط وار اسٹوری کا تعلق بدنام زمانہ سنگدل بے رحم اور سفاک ترین ڈاکوؤں کے اس گینگ سے ہے جو اکتوبر۔نومبر  1992 میں جیل کے اندر تشکیل پایا اور صرف پونے دو سال کے عرصے میں ان دس سفاک درندے صفت لوگوں کا پورا گینگ سوائے  انو ماچھی کے  باقی سارے واصل جہنم ہوکر خاک کا رزق بن چکے ہیں، انو ماچھی بھی ان کا سہولت کار اور آلہ کار تھا ڈکیتی کی وارداتوں میں عملاً شامل نہیں ہوتا تھا!  یہ اسٹوری کوئی افسانہ نہیں ہے سو فیصد سچے واقعات پر مشتمل ہے البتہ آپ کی آسانی کے لئے میں اسے قسطوں میں پیش کررہا ہوں کہ آپ بور نہ ہوجائیں ، اگر آج کی نوجوان نسل اس سے کوئی سبق حاصل کرنا چاہے تو اس اسٹوری میں بہت بڑا سبق اور درس ہے ، شرط یہ ہے کہ آپ اس سے سبق حاصل کریں تب نہ !!!!!!!
(کل 21 جولائی بروز اتوار سوا گیارہ بجے کے لگ بھگ مجھے انو ماچھی کا فون آیا تھا ، اس کے مطابق ملک سلطان محمود کونسلر کا قتل سیاسی یا فرمائشی  نہیں تھا بلکہ ذاتی دشمنی کا نتیجہ تھا ، نہ ہی میرے ذریعے کوئی ڈیل ہوئی تھی ، اس نے کہا کہ ملک سلطان کی بھورے ماچھی اور حمیدے کے ساتھ ذاتیات تھیں ، یہ قتل اس وجہ سے کیا گیا تھا، جب میں نے اسے بتایا کہ جو ویڈیو صادق شاہ نے ریکارڈ کروائی تھی میں اسے دیکھ اور سن کر  اس کے علاوہ انہی دنوں میری تھانہ صدر میں ملاقات بھی ہوئی تھی صادق شاہ کے مطابق یہ لکھ رہا ہوں تو اس نے کہا کہ جب بندہ پولیس کی کسٹڈی میں ہوتا ہے وہ سارا سچ نہیں بولتا اسے بہت ساری جگہوں پر جھوٹ کا سہارا لینا پڑتا ہے ،اس کے علاوہ انو ماچھی نے کہا کہ مرے ہوئے بندے دی قبر نہ پھرولی ونجے تاں چنگا اے، توں چنگی قوم دا بندہ ائیں کیڑھے پاسے لگ گئیں اس نے یہ بھی کہا کہ میں دو سال سات ماہ 19 دن جیل کاٹ کر آیا ہوں اس جھوٹے الزام کی وجہ سے ،، میں تیکوں سچ ڈسا ڈتم اگے تیڈی مرضی اے، میرے نزدیک انو ماچھی کا حق ہے کہ وہ اپنا موقف پیش کرے ) 
تحصیل علی پور کے علاقے بیٹ ملاں والی میں ستاری گوپانگ نے اپنی  بہن کا بدلہ لینے کے لئے ان درندوں کو ساتھ لیکر  جو کھیل کھیلا وہ لکھتے ہوئے مجھے دقت ہورہی ہے بس اتنا لکھ دوں کہ بیٹی کی عصمت دری جب باپ کے سامنے کی گئی ہوگی تو باپ اور بیٹی کے دل و دماغ پر کیا گذری ہوگی، اس صدمے سے درندگی سے بھرپور واردات کے تیسرے دن بیٹی جان کی بازی ہار گئی ابھی عزیز و اقارب بیٹی کی تدفین کرکے تعزیتیں وصول کررہے تھے کہ باپ یعنی سدو خاں گوپانگ کے دماغ کی شریان پھٹ گئی اور وہ اپنے خالق حقیقی سے جاملا۔ 
 میں اس واردات کے مندرجات کو اسکپ کررہا ہوں کہ مجھ سے یہ سنگین، سفاکانہ، بے رحمانہ، سنگدلانہ  واقعہ لکھا ہی نہیں جارہا، بس آپ سمجھ لیں کہ وہ درندے تھے اور انہوں نے وہاں شیطانی اور درندگی والا کھیل کھیلا تھا۔ 
  صادق شاہ گینگ کی یہ واردات آخری ثابت ہوئی، صادق شاہ اور اس کے ساتھی جتوئی شہر کی نزدیکی بستی غزلانی میں مقیم تھے، قیام کے دوران ہی انہوں نے علی پور روڈ  سے موٹر سائیکل چھینا اور پھر وہی موٹر سائیکل ہی صادق شاہ کے گلے کا پھندہ بن گیا۔ اُس موٹر سائیکل کی تصویر بھی اس قسط میںموجود ہے ۔
 صادق شاہ کو 19مارچ 1994کو ضلع مظفرگڑھ  کی پولیس کی تحویل سے لے کر خان پور کی پولیس اسے تھانہ صدر لائی، جیسا کہ میں پہلے بھی آپ کو بتا چکا ہوں کہ اس کی آمدپر تھانہ صدر خان پور کے اردگرد کرفیو جیسا ماحول پیدا کیا گیا، اس کی وجہ یہ تھی کہ صادق شاہ گینگ کے لوگ نہایت سفاک اور غضب کے دلیر تھے، پولیس کو خدشہ تھا کہ کہیں اس کے ساتھی اسے چھڑوانے کے لئے تھانے پر حملہ نہ کردیں اس لئے یہ احتیاطی تدابیر اختیار کی گئیں، ان دنوں تھانہ صدر خان پور میں ایس ایچ او سب انسپکٹر سردار ایوب تھے، اس کے علاوہ نعیم بابر نامی ایک سب انسپکٹر، چوہدری حفیظ اللہ اے ایس آئی اور دیگر اہلکاران تعینات تھے مگر صادق شاہ کی آمدپر پولیس لائن سے اضافی نفری منگوائی گئی تھی، جس کی مدد سے ہی وہاں کرفیو کا سا سماں پیدا کیا گیا، 
 اُس رات کو یہ سب لوگ تھکے ہوئے تھے اس لئے چوہدری حفیظ اللہ مرحوم بھی جب گھر کوروانہ ہوا تو باقی بھی چلے گئے، دوسرے دن یعنی 20مارچ سے صادق شاہ کی تفتیش شروع ہوئی، یہاں بھی صادق شاہ نے وہی طریقہ علی پور والا اختیار کیا کہ آپ نے جو پوچھنا ہے پوچھیں میں سب کچھ سچ سچ بتاؤں گا، چوہدری حفیظ اللہ مرحوم کے مطابق مجھے لگتا ہے کہ وہ تقریباً سچ ہی بتا رہا ہے، باتیں وہی تھیں جو اس نے علی پور میں انوسٹی گیشن ٹیم کو بتائیں البتہ یہاں تفتیشی ٹیم کی پوچھ گچھ زیادہ تر اپنے سرکل میں ہونے والی وارداتوں بارے تھی، چوہدری حفیظ اللہ مرحوم نے صادق شاہ کے انکشافات پر مبنی ایک ویڈیو بھی بنوائی تھی، یہ ویڈیو آج بھی اُس وقت کے ایک پولیس کانسٹیبل کے گھر میں موجود ہے ! 
 میری چوہدری حفیظ اللہ مرحوم سے اچھی اور ایک دوسرے پر اعتماد والی دوستی  تھی، میں نے اسے متعدد بار کہا کہ یار چوہدری، میکوں تاں صادق شاہ نال ملوا، وہ کہتا ابھی نہیں، جب ہم سمجھیں گے کہ سب کچھ پوچھ لیا ہے یعنی نچوڑ لیا ہے تب تمہاری ملاقات کروا دوں گا ،
خیر آخر وہ دن آہی گیا،  26مارچ 1994 بروز ہفتہ دن کے گیارہ بجے چوہدری حفیظ اللہ مرحوم اپنی جیپ پر  سوار میری دکان پر آیا اور مجھے باہر بلا کر رازداری سے کہا، چل، چلئے، میں نے کہا،کتھاں؟ اس نے کہا، اُتھے، جتھے توں کیندا سی مینوں ملوا، مینوں ملوا، میں سمجھ گیا اور بڑا پرجوش ہوگیا جمپ مار کر اس کی جیپ میں سوار ہوگیا،اس نے جیپ چلا دی جیپ کا رخ تھانہ صدر کی جانب تھا، جیپ جب پیپل والی موری پر پہنچی تو اسے حسب معمول ریڑھی بانوں نے اپنی ریڑھیاں بیچ چوراہے میں لگا کر ایک قسم کا  چوک بلاک ہی کر رکھا تھا، مگر میں نے یہ بھی دیکھا کہ جب ایک ریڑھی بان کی نگاہ چوہدری حفیظ پر پڑی تو اس نے باقی ریڑھی والوں کو اشارۃ کہا نہریا آگیو ، یعنی تمہارا ہمارا ناپسندیدہ بندہ آ گیا ہے ، اُبھر لو ، یعنی فوراً نو دو گیارہ ہو جاؤ ، اور واقعی ایک لمحے میں ریڑھی والوں نے چوہدری حفیظ مرحوم کے ڈر سے چوک خالی کردیا، جبکہ آج کل ڈی ایس پی  بھی آجائے مجال ہے کہ یہ ریڑھی والے اسے راستہ ہی دے دیں ۔آگے ہائی اسکول روڈ پر بھی وہی کیفیت دیکھی ،چوک دین پور کراس کرکے جب عباسیہ نہر کا پل کراس کیا تو 
  تھانہ  صدر قریب آتا جا رہا تھا میرے دل کی دھڑکن بڑھتی جارہی تھی، یقیناً یہ صادق شاہ کا خوف اور دہشت ہی تھی کہ میرے دل کی دھڑکنیں بے ترتیب سی ہوتی جارہی تھیں اور وہ میرے بس میں بھی نہیں تھیں 
 میں سوچ رہا تھا کہ میں اس سے کیا پوچھوں گا؟ کیسے پوچھوں گا؟ اس کی شکل کیسی ہوگی؟قد کاٹھ کیسا ہوگا؟  وہ کیسے بولتا ہوگا؟ کیا میری بات بھی سنے گا؟ مجھے قریب آنے دیگا؟ سوالات کرنے دے گا اور اس جیسے کئی سوال میرے ذہن کے گوشوں سے سر اٹھا رہے تھے، چوہدری حفیظ نے جیپ تھانے صدر کے گیٹ پر روکی، ہم دونوں اکٹھے اترے اور اندر داخل ہوئے، اُن دنوں اندر داخل ہوتے ہی الٹے ہاتھ پر ایس ایچ او کاکمرہ ہوتا تھا اس کے سامنے اسی ہاتھ پر ہی دو  حوالات تھیں پہلی حوالات چھوٹی تھی اور اس پر لکھا تھا (زنانہ حوالات) یعنی اُن دنوں خواتین بھی حوالاتوں میں بند ہوتی تھیں جبکہ اب ایسا نہیں ہوتا، 
 حفیظ اللہ جیسے ہی زنانہ حوالات کی طرف مڑا، میرے دل کی دھڑکن مزید تیز ہوگئی، ایک نوجوان چہرے پر ہلکی سی داڑھی، چھریرا سا بدن، دونوں ہاتھوں میں ہتھکڑیاں، پاؤں میں بیڑیاں اور ہتھکڑی کو حوالات کی سلاخوں سے باندھ کر تالہ لگایا ہوا تھا اس طرح صادق شاہ کو مسلسل کھڑا رکھا گیا تھا، میں اس کے سامنے گیا توآپ یقین کریں میں کوئی بزدل بندہ بھی نہیں ہوں (اور ایسا بہادر بھی نہیں ہوں) مگر ایسا لگ رہا تھا کہ اس کے نام اور کام کی وجہ سے میں خوفزدہ ہوں، شاید کوئی اور ہوتا تو وہ اپنی کیفیت کا کبھی تحریر میں ذکر  نہ کرتا  یا شاید یہ لکھتا کہ میں نے تو جی جاتے ہی اس پر تابڑ توڑ سوالات کی بھرمار کردی وغیرہ وغیرہ مگر میری تو گھگھی بندھی ہوئی تھی، اچھا!! یہ ہے صادق شاہ۔ 
 میں نے اپنی کیفیت پر قابو پانے کی کوشش کی اور چوہدری حفیظ نے کہا لئے قمر خاں، مل لئے شاہ جی نوں، توں ایدے نال گپ شپ مار، میں شاہ جی دے ٹُکر پانڑی دا بندوبست کر لواں، یہ کہہ کر چوہدری حفیظ تو چلا گیا، مجھے اکیلا چھوڑ گیا اب صادق شاہ میری طرف دیکھنے لگ گیا، ہونا تو یہ چاہئے تھا نہ کہ میں اس سے کچھ پوچھتا، الٹا اس نے ہی مجھے بلوایا، جی سئیں، وت آپ کون او؟ میں نے اب بہت حد تک اپنے آپ پر قابو پا لیا تھا، میں نے وہ حربہ استعمال کیا جو اس ے پہلے بھی جرائم پیشہ لوگوں سے انٹرویو کے وقت کرتا تھا، یعنی آپ اُن دنوں کے جرائم پیشہ سے سوالات کرتے تو آگے سے وہ گالیاں تک نکال دیتے تھے، جواب دینے کی بجائے الٹا دھمکاتے، چل چل اپنڑا کم کر، وڈا  ائیں توں اخباری نمائندہ، یہ سلوک میرے سامنے میرے ہی ایک ہم عصر مرحوم ساتھی کے ساتھ ہوچکا تھا، اس لئے اب میرا طریقہ کہہ لیں یا بے شک آپ اسے حربے کا نام دے دیں، میں جرائم پیشہ بندے کے ساتھ گفتگو کرنے سے پہلے اس کے جرائم کو اس کے کارنامے بنا کر اس کے ساتھ گھلنے ملنے کی کوشش کرتا تھا اور یہ ننانوے فیصد کامیاب بھی ہوتا رہا، اب بھی
 میں نے وہی طریقہ اپنایا، کہا! مرشد!! میں سئیں دی زیارت کرنڑ آیاں، بئی کئی گالھ نئیں، چوہدری حفیظ میڈا یار اے، اینکوں آکھیا ہم پیر سئیں نال تاں ملواویں ہا، ایندی مہربانی اج اے گھن آئے تہاڈی زیارت تھی گئی اے، بس بئی سب خیر اے، مرشد! تساں خیر خیریت نال او؟  آگے سے صادق شاہ حیران پھٹی پھٹی نگاہوں سے مجھے دیکھ رہا ہے اور پھر کہا، 
نہ میں اتھاں تعویز ڈیندا بیٹھاں جو  توں میڈی زیارت کرنڑ آئیں؟ اب میں اپنے اوسان پر قابو پا چکا تھا، نہ سئیں نہ مرشد، آپ سید زادے تاں ہیوے ناں، بس ایہا گالھ کافی اے زیارت کیتے، صادق شاہ نے جواب دیا، توں میڈے کرتوت جانڑدیں یا بس ایویں زیارت کرنڑ بھج پئیں؟  
میرا جواب! مرشد، میں بیا تاں کجھ نئیں جانڑداں، اتلا جانڑداں جو اگر ایں تھانڑے والی مسیت کوں بھا لگ ونجے، قرب و جوار وچ پاک صاف پانڑی نہ ہووے البتہ ناپاک پلیت پانڑی دا  ڈھورا بھریا کھڑا ہووے تاں کیا او ناپاک پلیت پانڑی بھا نہ وسمیسے؟ میرا جملہ پورا ہوا تو اب صادق شاہ کی باری تھی ویڑا ہونے کی، کہنے لگا واہ واہ، اے گالھ تاں میکوں اج تئیں کہیں نئیں کیتی، ایہو جینکوں یار بنڑائی ودیں (اس کا اشارہ چوہدری حفیظ کی طرف تھا) ایہا دلیل اینکوں وی سمجھا،پنجواں ڈینہوار اے میکوں زچ کیتی ودے،  اے ڈیکھ گھن میکوں ڈینہہ رات ایویں کھڑا رکھیندیں ہنگڑ مترنڑ وی اوکھا تھی گے،میں نے کہا مرشد ٹھیک اے اونکوں وی سمجھیندوں، پھر کہنے لگا تئیں اپنڑا تعارف تاں نئیں کروایا، میں نے کہا میرا ناں قمراقبال اے تے قوم دا میں جتوئی تھینداں، پیشے دے لحاظ نال میں اخباری نمائندہ آں، میرا فقرہ ابھی مکمل نہیں ہوا تھا کہ وہ درمیان میں بول پڑا، اچھا توں جتوئی تھیندیں؟میں نے ہاں میں سر ہلایا پھر پوچھا کتھ بیٹھیں؟ میں نے کہا خان پور شہر وچ رہندوں ویسے پچھوں اساں شہر جتوئی دے ہیسے، اچھا اچھا، ول جئیں مائی میکوں پکڑوائے او وی تاں جتوئی تھیندی اے، تہاڈی رشتے دار ہوسے؟ میں نے کہا، مرشد میکوں نئیں پتہ تہاکوں کیڑھی مائی پکڑوائے، اگر او جتوئینڑ اے تاں ضروری تاں نئیں جو میڈی رشتے دار وی ہووے! 
 میرے تعارف کے بعد اب اس کا میرے ساتھ بات چیت جاری رکھنے کا کوئی موڈ نظر نہیں آرہا تھا اور میں بھی اب اس بات چیت کو موقع محل کی مناسبت سے ختم کرنے کا سوچ چکا تھا، میں نے کہا اچھا مرشد میکوں اجازت؟ اس نے ایک اچٹتی سی نظر مجھ پرڈالی اور کہا اچھا ہنڑ توں ونج جتوئی نہ ہوویں ہا تاں بندہ توں چنگا لگدیں حالی میڈا موڈ خراب کرڈتی فی الحال توں ونج، پر ول آویں سعی، تیڈے نال گپ شپ مارنڑ دی چس امسے، میں اس سے ملاقات ختم کرکے چوہدری حفیظ کے کمرے کی جانب چلا گیا، اس نے کہا ہاں جی پیر سئیں نال ملاقات ہو گئی اے، کئی تعویز شویز وی پیرسئیں نیں دتا اے؟ میں نے ملاقات کی آخری لائنیں بتائی تو چوہدری حفیظ بڑا ہنسا اور کہنے لگا قمرخاں تو اکثر جرائم پیشہ کو جب یہ بتاتا ہے کہ میں جتوئی قبیلے کا فرد ہوں تو میں سمجھ جاتا ہوں تو اس جرائم پیشہ کے دل میں اپنے بلوچ ہونے کی ہمدردی جتا کر اس سے معلومات لینا چاہتا ہے مگر آج تمہارا بلوچ ہونا الٹا گلے پڑ گیا ہے،وہ میرا مذاق اڑاتا رہا اور میں محظوظ ہوتا رہا کہ بات تو اس کی سچ تھی۔ 
 چوہدری حفیظ صادق شاہ کے لئے باہر موجود ہوٹل سے کھانا منگوا چکا تھا، ایک سپاہی کو بلایا اس نے کھانا اٹھایا اور پھر مجھ سے پوچھا چلنا ہے مرشد کے پاس، میں نے ہاتھ جوڑ دئے کہا ایک دو دن گذارکے پھر آؤں گا، چوہدری حفیظ نے حوالات کھلوائی، پھر اس کی ہتھکڑی بھی کھلوائی کھانا اور پانی اس کے آگے رکھ کر حوالات پھر بند کروادی، سپاہی کو کہا جب یہ کھانا کھا لے تو برتن باہر لے لینا اور ہتھکڑی پہنا کر حوالات کی سلاخوں سے باندھ دینا میں قمر خاں کو چھوڑ کر آرہا ہوں حفیظ اللہ مرحوم مجھے اپنی جیپ میں بٹھا کر واپس دکان پر چھوڑنے کے لئے آیا تووہ سارا راستہ میری کلاس لیتا آیا، کہ وڈا شوق سی تینوں صادق شاہ نال ملنڑ دا، خیر جب جیپ میری دکان کے پاس پہنچی تو میں نے کہا چوہدری، گالھ سنڑ، جتلی حشری توں میڈی سارے رستے کریندا ائیں تے میں چپ رہیاں، یار چوہدری ہک وعدہ کر توں میکوں ہک وار ولا ضرور ملویسیں صادق شاہ نال میں جھجھکیا ودا ہم، ہنڑ میڈی جھجھک لتھی اے اگلی ملاقات چس نال تھیسے، چوہدری حفیظ نے کہا کہ میں صادق شاہ توں پچھاں گا جے او کہوے گا تاں میں تیری ملاقات کرواں گا جے انہیں کیہاں، جتوئی نوں میرے سامنے نہ لیاویں، تے میں تینوں نئیں او کھڑناں، اس وعدے کے بعد چوہدری حفیظ مجھے اتار کر واپس چلا گیا اور میں واقعی سوچنے لگا کہ آج میرے ساتھ کیا ہوا۔ 
 صادق شاہ کے ساتھ دوسری ملاقات!!  28مارچ کی رات دس بجے کے لگ بھگ مجھے چوہدری حفیظ اللہ مرحوم کا فون(ان دنوں لینڈفون ہوتے تھے) آیا کہ اج تینوں صادق شاہ یاد کر رہیا سی، سویرے تیار رہویں میں تینوں دکان توں کھڑ لواں گا، میں خوش ہوگیا کہ اس کا مطلب ہے مرشد کو مرشد کہنا اچھا لگا ہے، میں صبح نو بجے سے ہی چوہدری حفیظ کا انتظار کرنے لگا، وہ دس بجے آیا میں اس کے ساتھ جیپ پر سوار ہوگیا راستے میں پوچھا، چوہدری حال تاں ڈے صادق شاہ تیکوں میڈے بارے کیا آکھس؟ تو چوہدری نے بتایا، راتی جدوں میں اودی تفتیش کر کے (گھر) کر نوں مڑنڑ لگاں تے مینوں کیندا اے چوہدری او تیڈا یار جتوئی ولا نئیں ولیا؟ میں اونوں کیہا کہ توں جو اونوں خود کیہا سی چلا جے، فیر او کیوں آنداں؟ یار اونکوں گھن آ چنگا بندہ اے بس اوں میکوں جو ڈسائے نا میں جتوئی تھینداں میکوں کاوڑ لگ گئی او جو میکوں پکڑوایا وی تاں اوں مائی ہا جیڑھی جتوئنڑ ہئی، ول سوچیم جو ایندا کیا قصور اے، یار چوہدری میکوں او بندہ ملواویں، چوہدری نے کہا میں اودے توں پچھیا ایہو جہیں کی گل اے کہ توں کئیں رہیا ایں مینوں او جتوئی ملوا، صادق شاہ نے جواب دیا کہ اس جتوئی نے مجھے جو ناپاک پانی سے تشبیہ دی تھی بس وہی بات مجھے اچھی لگی ہے اسے ضرور ملوانا، خیر، ہم تھانہ صدر پہنچ گئے، تھانے کے باہر کرفیو کا سا سماں تھا یعنی تھانے کی دیوار کے ساتھ بھی مسلح پولیس والے کھڑے تھے اور کسی کو دیوار کے قریب بھی آنے کی اجازت نہیں تھی، باہروالے گیٹ پر کم ا زکم چار مسلح اہلکار ڈیوٹی دے رہے تھے چوہدری حفیظ گو اے ایس آئی تھا مگر اس کی گل بات ایس ایچ او سے بھی بڑھ کر تھی،  چوہدری کی گاڑی کے لئے باہر والا گیٹ کھولا گیا، جیپ اندر داخل ہوئی تو میں نے محسوس کیا آج میری ویسی کوئی حالت نہیں تھی جیسی پہلی ملاقات میں تھی، میں جیپ سے اترا تو چوہدری حفیظ نے جیپ ایک سائیڈ پر لگائی، میرے ساتھ چلتے ہوئے زنانہ حوالات تک آیا تو آج بھی صادق شاہ اسی انداز میں ہی کھڑا تھا یعنی ہاتھوں میں ہتھکڑیاں، پاؤں میں بیڑیاں، اسے حوالات کی سلاخوں سے باندھ کر ایک موٹا ساتالہ لگا یا گیا تھا، میں آج بالکل نارمل تھا، آگے بڑھ کر صادق شاہ کو سلام کیا، حال احوال پوچھا، اتنی دیر میں چوہدری حفیظ اپنے کمرے میں چلا گیا، میں ابھی خیر خوش کر ہی رہا تھا کہ ایک نوجوان سب انسپکٹر جس کا نام بعد میں معلو م ہوا (نعیم بابر)وہ آگیا اور بڑی حیرت سے مجھے دیکھنے لگا کہ یہ بندہ کون ہے؟ اور صادق شاہ جس کے قریب بھی ہم کسی کو نہیں آنے دیتے اس کے ساتھ گفتگو کررہا ہے، وہ آیا اور مجھ سے  بڑے معنی خیز انداز میں پوچھا جناب دا تعارف؟ اس کا خیال تھا کہ کہیں یہ کسی ایجنسی کا بندہ تو نہیں جو صادق شاہ سے پوچھ گچھ کرنے آیا ہو، میں نے جواب دیا قمر اقبال جتوئی ڈسٹرکٹ رپورٹر روزنامہ پاکستان، 
 اس کے چہرے پر حیرت اور تشویش کے آثار نظر آئے، جناب نوں کنے پرمیشن دتی اے؟ میں نے اسے کہا کہ اتنے سخت پہرے میں اگر میں یہاں تک آکر صادق شاہ کے ساتھ کھڑا ہوں تو یقیناً کسی اہم آفیسر کی پرمیشن کے بعد ہی مجھے یہاں تک آنے دیا گیا ہے،اس کے بعد صادق شاہ ہی بول پڑا، اینکوں چوہدری حفیظ گھن آئے، اے چوہدری حفیظ دا یار اے تے ساڈے نال یاری لاونڑ ائے،جناب کوں کئی اعتراض اے تاں چوہدری حفیظ کنوں ونج پچھو، اس کے بعد سب انسپکٹر نعیم بابر کے چراغوں میں روشنی نہ رہی اوروہ اپنا سا منہ لیکر مرکزی گیٹ کی جانب چل پڑا۔

 اب میں سوچ رہا تھا کہ اس کے ساتھ بات چیت کا آغاز کہاں سے کروں اور کہاں تک بات پہنچاؤں، سچی بات یہ ہے کہ مجھے خود سمجھ نہیں آرہی تھی کہ پھر میں نے ایک سوال داغ دیا، مرشد سیداں دے گھر دا چشم و چراغ تھی کراہیں کیڑھے پاسے ٹُر پئے ہیوے؟ یعنی سادات گھرانے کا چشم و چراغ ہوکر کون ساراستہ اختیار کرلیا؟  
 صادق شاہ کہنے لگا، جتوئی نیڑے تھی آ یعنی نزدیک آجاؤ، گو میں اندر سے ڈر رہا تھا پھر بھی اس کے سامنے اپنا اندرونی ڈر ظاہر کئے بغیر باالکل اس کے منہ کے سامنے اپنا منہ اس طرح لے گیا کہ درمیان میں صرف سلاخیں تھیں یا زنجیریں، اور پھر صادق شاہ بولنے لگا!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!  جاری ہے. قمر اقبال جتوئی 03006734560

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے